ضیا ضمیر کی غزل

    روح پہ کیا کیا ضرب لگے ہیں جسم کی کھینچا تانی میں

    روح پہ کیا کیا ضرب لگے ہیں جسم کی کھینچا تانی میں عشق کا حاصل دیکھ رہے ہیں ہم دونوں حیرانی میں ایک مرا آئینہ خانہ ایک تمہارے جسم کی لو خوف زدہ دل سوچ رہا ہے آگ لگے کب پانی میں ہم کو کیا معلوم تھا اس نے کیا کیا چھپا کے رکھا تھا ہم نے دوپٹہ کھینچ لیا تھا شانے سے نادانی میں پیسے دے ...

    مزید پڑھیے

    مانا کہ یہاں اپنی شناسائی بھی کم ہے

    مانا کہ یہاں اپنی شناسائی بھی کم ہے پر تیرے یہاں رسم پزیرائی بھی کم ہے ہاں تازہ گناہوں کے لیے دل بھی ہے بیتاب اور پچھلے گناہوں کی سزا پائی بھی کم ہے کچھ کار جہاں جاں کو زیادہ بھی لگے ہیں کچھ اب کے برس یاد تری آئی بھی کم ہے کچھ غم بھی میسر ہمیں اب کے ہیں زیادہ کچھ یہ کہ مسیحا کی ...

    مزید پڑھیے

    آخرش کر لیا قبول ہمیں

    آخرش کر لیا قبول ہمیں اس نے بھیجے ہیں لال پھول ہمیں ایک لڑکی کا خواب ہیں ہم بھی کوئی سمجھے نہیں فضول ہمیں اس قدر یاد کر رہے ہو تم یعنی جاؤ گے تم بھی بھول ہمیں ہم ہیں خوشبو ہوا کے دوش پہ ہیں جلد کر لیجیے وصول ہمیں مختصر کیجئے کہانی کو آپ تو دے رہے ہیں طول ہمیں راہ تیری نہیں ...

    مزید پڑھیے

    غم کا دریا سوکھ نہ جائے اس کی روانی کم نہ پڑے

    غم کا دریا سوکھ نہ جائے اس کی روانی کم نہ پڑے خون جگر بھی شامل کر لوں آنکھ میں پانی کم نہ پڑے اس کے بدن کی خوشبو کا کچھ توڑ نکالو آج کی رات اور کوئی خوشبو لے آؤ رات کی رانی کم نہ پڑے سال‌‌ دو سال کی بات نہیں ہے عمر بہت درکار ہے ہاں سوچ رہا ہوں عشق کی خاطر عہد جوانی کم پڑے آئینے کا ...

    مزید پڑھیے

    اتنی شدت سے گلے مجھ کو لگایا ہوا ہے

    اتنی شدت سے گلے مجھ کو لگایا ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ وقت آخری آیا ہوا ہے کیوں نہ اس بات پہ ہو جائیں یہ آنکھیں پاگل نیند بھی اتری ہوئی خواب بھی آیا ہوا ہے اب کے ہولی پہ لگا رنگ اترتا ہی نہیں کس نے اس بار ہمیں رنگ لگایا ہوا ہے سوچتا ہوں کہ اسے خود کو میں انعام کروں ایک لڑکی نے ترا ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو بے ساختہ ہنسنے کی ادا تھی تیری

    وہ جو بے ساختہ ہنسنے کی ادا تھی تیری تجھ کو معلوم نہیں وہ ہی دوا تھی تیری ہجر راتوں میں اسے اوڑھ کے سو جاتا تھا پاس میرے جو اداسی کی ردا تھی تیری تیرے اک دوست نے پوچھا تھا یہ رو کر مجھ سے ہے قسم تجھ کو بتا دے کہ وہ کیا تھی تیری بد دعا اپنے لئے خوب کری تھی میں نے ہاں مگر راہ میں ...

    مزید پڑھیے

    زرد پتے تھے ہمیں اور کیا کر جانا تھا

    زرد پتے تھے ہمیں اور کیا کر جانا تھا تیز آندھی تھی مقابل سو بکھر جانا تھا وہ نہ تھا ترک تعلق پہ پشیمان تو پھر تم کو بھی چاہئے یہ تھا کہ مکر جانا تھا کیوں بھلا کچے مکانوں کا تمہیں آیا خیال تم تو دریا تھے تمہیں تیز گزر جانا تھا عشق میں سوچ سمجھ کر نہیں چلتے سائیں جس طرف اس نے ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو ہر لمحہ نہ راحت نہ سکوں ہے یوں ہے

    یہ جو ہر لمحہ نہ راحت نہ سکوں ہے یوں ہے اس کو پانے کا عجب دل میں جنوں ہے یوں ہے عادتاً کرتا ہے وہ وعدہ خلافی پہلے پھر بناتا ہے بہانے بھی کہ یوں ہے یوں ہے مجھ کو معلوم ہے لوٹ آئے گا میری جانب اس کے جانے پہ بھی اس دل میں سکوں ہے یوں ہے دل کا کھنچنا جو یہ جاری ہے فقط اس کی طرف اس کی ...

    مزید پڑھیے

    زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا

    زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا تم بھی بے وجہ جی رہی ہو کیا دیکھ کر تم کو کھلنے لگتے ہیں تم گلوں سے بھی بولتی ہو کیا اس قدر جو سجی ہوئی ہو تم میری خاطر سجی ہوئی ہو کیا میں تو مرجھا گیا ہوں اب کے برس تم کہیں اب بھی کھل رہی ہو کیا آج یہ شام بھیگتی کیوں ہے تم کہیں چھپ کے رو رہی ہو کیا اس ...

    مزید پڑھیے

    اب تو آتے ہیں سبھی دل کو دکھانے والے

    اب تو آتے ہیں سبھی دل کو دکھانے والے جانے کس راہ گئے ناز اٹھانے والے عشق میں پہلے تو بیمار بنا دیتے ہیں پھر پلٹتے ہی نہیں روگ لگانے والے کیا گزرتی ہے کسی پر یہ کہاں سوچتے ہیں کتنے بے درد ہیں یہ روٹھ کے جانے والے کرب ان کا کہ جو فٹ پاتھ پہ کرتے ہیں بسر کیا سمجھ پائیں گے یہ راج ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4