زہرا شاہ کی غزل

    مجھ میں بسنے والے شخص نے مجھ میں رہنا چھوڑ دیا

    مجھ میں بسنے والے شخص نے مجھ میں رہنا چھوڑ دیا اس نے میری بات نہ مانی میں نے کہنا چھوڑ دیا تم جیسے مرضی سوچو پر لوگ تو سب کچھ جانتے ہیں کس نے کتنا ساتھ نبھایا کس نے کتنا چھوڑ دیا اس تاریکی میں اب اور کسی پر کیا الزام دھروں مجھ کو جب میرے اپنے سائے نے تنہا چھوڑ دیا دنیا بھر کا ...

    مزید پڑھیے

    کسی جواب کی مہلت نہیں ملی مجھ کو

    کسی جواب کی مہلت نہیں ملی مجھ کو برا نہ مان سہولت نہیں ملی مجھ کو اسی سکون نے عادت بگاڑ دی میری بہت دنوں سے اذیت نہیں ملی مجھ کو کسی سے اپنے تعلق کو غور سے دیکھا کسی طرح کی حماقت نہیں ملی مجھ کو میں اس مزاج کے دریا سے خوب واقف تھی تبھی تو پیاس کی شدت نہیں ملی مجھ کو گزشتہ رات ...

    مزید پڑھیے

    گہرا اور کشادہ ہوگا لیکن ایسا دیکھا ہے

    گہرا اور کشادہ ہوگا لیکن ایسا دیکھا ہے آگے آگے آ جائے جی جس نے دریا دیکھا ہے ذاتی طور پہ پستی اور قامت دونوں کا شوق نہیں بس اتنی اونچی ہو جاؤں جتنا اونچا دیکھا ہے اس کے کان سریلے ہوں گے جس نے وہ آواز سنی اس کی آنکھیں میٹھی ہوں گی جس نے میٹھا دیکھا ہے کوئی اس کو پیاس تو کوئی سات ...

    مزید پڑھیے

    وہ مجھ کو بھول بھی جائے تو حیرانی نہیں ہوگی

    وہ مجھ کو بھول بھی جائے تو حیرانی نہیں ہوگی مجھے ہے راس تنہائی پریشانی نہیں ہوگی میں جو کچھ سوچتی ہوں وہ کبھی کہہ ہی نہیں پائی سو مجھ کو بات کر کے بھی پشیمانی نہیں ہوگی کسی کو یاد کرنے میں جو آسانی ہوئی مجھ کو بھلانے بیٹھ جاؤں تو وہ آسانی نہیں ہوگی خفا ہو کر گیا ہے جس طرح سے ابر ...

    مزید پڑھیے

    میرے خدشات کیوں نہیں سمجھے

    میرے خدشات کیوں نہیں سمجھے مختصر بات کیوں نہیں سمجھے کھڑکیاں بات کرنا چاہتی تھیں یہ مکانات کیوں نہیں سمجھے آپ ہر بات کو سمجھتے ہیں میرے جذبات کیوں نہیں سمجھے یہ زمیں آسماں ہمارے تھے ہم اشارات کیوں نہیں سمجھے کیسے کرتی یہاں بغاوت میں تم روایات کیوں نہیں سمجھے خامشی میں ...

    مزید پڑھیے

    جیسے اسے قبول تھا کرنا پڑا مجھے

    جیسے اسے قبول تھا کرنا پڑا مجھے ہر زاویے سے خود کو بدلنا پڑا مجھے یادوں کی ریل اور کہیں جا رہی تھی پھر زنجیر کھینچ کر ہی اترنا پڑا مجھے ہر حادثے کے بعد کوئی حادثہ ہوا ہر حادثے کے بعد سنبھلنا پڑا مجھے چاہا تھا اس نے میری اداسی حسین ہو حزن و ملال میں بھی نکھرنا پڑا مجھے پہلے مکر ...

    مزید پڑھیے

    یہ خود بہل جائے گی طبیعت کسی کی کوئی کمی نہیں ہے

    یہ خود بہل جائے گی طبیعت کسی کی کوئی کمی نہیں ہے مجھے دلاسوں کی کیا ضرورت مری مصیبت نئی نہیں ہے سنا بہت تھا ہمارے قصے سبھی جریدوں میں چھپ چکے ہیں میں پڑھ چکی ہوں یہ سارے کالم وہ اک خبر تو لگی نہیں ہے یہ غم شراکت کا وہ ہی سمجھے جو اس اذیت میں مبتلا ہے تم اتنے مغرور اس لئے ہو تمہاری ...

    مزید پڑھیے

    میں نے چپ چاپ سن لیا خود کو

    میں نے چپ چاپ سن لیا خود کو مدتوں بعد کچھ کہا خود کو شکل پہچان میں نہیں آئی غور سے دیکھنا پڑا خود کو مجھ کو تکلیف ہی نہیں ہوتی شاید اب ہجر کھا گیا خود کو کچھ دنوں پہلے مجھ سے ملتا تھا اب تو وہ مل نہیں رہا خود کو آج میں آ گئی ہوں دیکھتی ہوں تو کہاں ہے ذرا بلا خود کو اس سے تو بات ...

    مزید پڑھیے

    یہی نہیں کہ جدائی میں مار دیتا ہے

    یہی نہیں کہ جدائی میں مار دیتا ہے وہ زندگی بھی مجھے بے شمار دیتا ہے اسے بھی پیاسا سمجھتے ہو حد نہیں ویسے جو خالی آنکھ میں دریا اتار دیتا ہے تم اب تو وقت بھی دیتے ہو اس طرح مجھ کو کہ جیسے کوئی کسی کو ادھار دیتا ہے یہ دینے والے کی گنتی کو مسئلہ کیا ہے کسی کو ایک کسی کو ہزار دیتا ...

    مزید پڑھیے