ظفر عجمی کی غزل

    یہ عہد کیا ہے کہ سب پر گراں گزرتا ہے

    یہ عہد کیا ہے کہ سب پر گراں گزرتا ہے یہ کیا طلسم ہے کیا امتحاں گزرتا ہے وہ قحط لطف ہے ہر دم ترے فقیروں پر ہزار وسوسہ آتش بجاں گزرتا ہے جو خاک ہو گئے تیرے فراق میں ان کا خیال بھی کبھی اے جان جاں گزرتا ہے جب اس کی بزم سے چل ہی پڑے تو سوچنا کیا کہ عرصۂ غم ہجراں کہاں گزرتا ہے کبھی وہ ...

    مزید پڑھیے

    آ کے جب خواب تمہارے نے کہا بسم اللہ

    آ کے جب خواب تمہارے نے کہا بسم اللہ دل مسافر تھکے ہارے نے کہا بسم اللہ ہجر کی رات میں جب درد کے بستر پہ گرا شب کے بہتے ہوئے دھارے نے کہا بسم اللہ شام کا وقت تھا اور ناؤ تھی ساحل کے قریب پاؤں چھوتے ہی کنارے نے کہا بسم اللہ اجنبی شہر میں تھا پہلا پڑاؤ میرا بام سے جھک کے ستارے نے ...

    مزید پڑھیے

    جان بے تاب عجب تیرے ٹھکانے نکلے

    جان بے تاب عجب تیرے ٹھکانے نکلے بارش سنگ میں سب آئنہ خانے نکلے سب بڑے زعم سے آئے تھے نئے صورت گر سب کے دامن سے وہی خواب پرانے نکلے رات ہر وعدہ و پیمان امر لگتا تھا صبح کے ساتھ کئی عذر بہانے نکلے اے کسی آتے ہوئے زندہ زمانے کے خیال ہم ترے راستے میں پلکیں بچھانے نکلے کاسۂ درد لیے ...

    مزید پڑھیے

    خوشا اے زخم کہ صورت نئی نکلتی ہے

    خوشا اے زخم کہ صورت نئی نکلتی ہے بجائے خون کے اب روشنی نکلتی ہے نگاہ لطف ہو اس دل پہ بھی او شیشہ بدست اس آئنے سے بھی صورت تری نکلتی ہے مرے حریف ہیں مصروف حرف سازی میں یہاں تو صوت یقیں آپ ہی نکلتی ہے زباں بریدہ شکستہ بدن سہی پھر بھی کھڑے ہوئے ہیں اور آواز بھی نکلتی ہے تمام شہر ...

    مزید پڑھیے

    ہر سمت شور بندہ و صاحب ہے شہر میں

    ہر سمت شور بندہ و صاحب ہے شہر میں کیا عہد تلخ حفظ مراتب ہے شہر میں ہر ناروا روا ہے بایں نام مصلحت اک کار عشق غیر مناسب ہے شہر میں کس حسن پر تجلی کی ہر چیز ہے اسیر ہیبت یہ کس کے حکم کی غالب ہے شہر میں اک خوف دشمنی جو تعاقب میں سب کے ہے اک حرف لطف جو کہیں غائب ہے شہر میں میں تنہا ...

    مزید پڑھیے

    تو نے کیوں ہم سے توقع نہ مسافر رکھی

    تو نے کیوں ہم سے توقع نہ مسافر رکھی ہم نے تو جاں بھی ترے واسطے حاضر رکھی ہاں اب اس سمت نہیں جانا پر اے دل اے دل بام پر اس نے کوئی شمع اگر پھر رکھی یہ الگ بات کہ وہ دل سے کسی اور کا تھا بات تو اس نے ہماری بھی بظاہر رکھی اب کسی خواب کی زنجیر نہیں پاؤں میں طاق پر وصل کی امید بھی آخر ...

    مزید پڑھیے

    امید صبح بہاراں خزاں سے کھینچتے ہیں

    امید صبح بہاراں خزاں سے کھینچتے ہیں یہ تیر روز دل ناتواں سے کھینچتے ہیں کشید تشنہ لبی قطرہ قطرہ پیتے ہیں یہ آب تلخ غم رفتگاں سے کھینچتے ہیں میں ان سے لقمۂ طیب کی داد کیا چاہوں جو اپنا رزق دہان سگاں سے کھینچتے ہیں سبو سے لذت یک گونہ لیتے ہیں لیکن خمار خاص لب دوستاں سے کھینچتے ...

    مزید پڑھیے

    بدن سے روح تلک ہم لہو لہو ہوئے ہیں

    بدن سے روح تلک ہم لہو لہو ہوئے ہیں تمہارے عشق میں اب جا کے سرخ رو ہوئے ہیں ہوا کے ساتھ اڑی ہے محبتوں کی مہک یہ تذکرے جو مری جان کو بہ کو ہوئے ہیں وہ شب تو کٹ گئی جو پیاس کی تھی آخری شب شریک گریۂ شبنم میں اب سبھو ہوئے ہیں تمہارے حسن کی تشبیب ہی کہی ہے ابھی چراغ جلنے لگے پھول مشک بو ...

    مزید پڑھیے