ظفر عجمی کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    یہ عہد کیا ہے کہ سب پر گراں گزرتا ہے

    یہ عہد کیا ہے کہ سب پر گراں گزرتا ہے یہ کیا طلسم ہے کیا امتحاں گزرتا ہے وہ قحط لطف ہے ہر دم ترے فقیروں پر ہزار وسوسہ آتش بجاں گزرتا ہے جو خاک ہو گئے تیرے فراق میں ان کا خیال بھی کبھی اے جان جاں گزرتا ہے جب اس کی بزم سے چل ہی پڑے تو سوچنا کیا کہ عرصۂ غم ہجراں کہاں گزرتا ہے کبھی وہ ...

    مزید پڑھیے

    آ کے جب خواب تمہارے نے کہا بسم اللہ

    آ کے جب خواب تمہارے نے کہا بسم اللہ دل مسافر تھکے ہارے نے کہا بسم اللہ ہجر کی رات میں جب درد کے بستر پہ گرا شب کے بہتے ہوئے دھارے نے کہا بسم اللہ شام کا وقت تھا اور ناؤ تھی ساحل کے قریب پاؤں چھوتے ہی کنارے نے کہا بسم اللہ اجنبی شہر میں تھا پہلا پڑاؤ میرا بام سے جھک کے ستارے نے ...

    مزید پڑھیے

    جان بے تاب عجب تیرے ٹھکانے نکلے

    جان بے تاب عجب تیرے ٹھکانے نکلے بارش سنگ میں سب آئنہ خانے نکلے سب بڑے زعم سے آئے تھے نئے صورت گر سب کے دامن سے وہی خواب پرانے نکلے رات ہر وعدہ و پیمان امر لگتا تھا صبح کے ساتھ کئی عذر بہانے نکلے اے کسی آتے ہوئے زندہ زمانے کے خیال ہم ترے راستے میں پلکیں بچھانے نکلے کاسۂ درد لیے ...

    مزید پڑھیے

    خوشا اے زخم کہ صورت نئی نکلتی ہے

    خوشا اے زخم کہ صورت نئی نکلتی ہے بجائے خون کے اب روشنی نکلتی ہے نگاہ لطف ہو اس دل پہ بھی او شیشہ بدست اس آئنے سے بھی صورت تری نکلتی ہے مرے حریف ہیں مصروف حرف سازی میں یہاں تو صوت یقیں آپ ہی نکلتی ہے زباں بریدہ شکستہ بدن سہی پھر بھی کھڑے ہوئے ہیں اور آواز بھی نکلتی ہے تمام شہر ...

    مزید پڑھیے

    ہر سمت شور بندہ و صاحب ہے شہر میں

    ہر سمت شور بندہ و صاحب ہے شہر میں کیا عہد تلخ حفظ مراتب ہے شہر میں ہر ناروا روا ہے بایں نام مصلحت اک کار عشق غیر مناسب ہے شہر میں کس حسن پر تجلی کی ہر چیز ہے اسیر ہیبت یہ کس کے حکم کی غالب ہے شہر میں اک خوف دشمنی جو تعاقب میں سب کے ہے اک حرف لطف جو کہیں غائب ہے شہر میں میں تنہا ...

    مزید پڑھیے

تمام