Yaqoob Tasawwur

یعقوب تصور

یعقوب تصور کی غزل

    مرے چاروں طرف ایک آہنی دیوار کیوں ہے

    مرے چاروں طرف ایک آہنی دیوار کیوں ہے اگر سچا ہوں میں سچ کا مقدر ہار کیوں ہے نشاط و انبساط و شادمانی زیست ٹھہری تو بتلائے کوئی جینا مجھے آزار کیوں ہے مسافت زندگی ہے اور دنیا اک سرائے تو اس تمثیل میں طوفان کا کردار کیوں ہے جہاں سچ کی پذیرائی کے دعویدار ہیں سب اسی بزم سخن میں ...

    مزید پڑھیے

    روبرو بت کے دعا کی بھول ہو جائے تو پھر

    روبرو بت کے دعا کی بھول ہو جائے تو پھر اور پھر وہ ہی دعا مقبول ہو جائے تو پھر میں بڑھاؤں ہاتھ جس کانٹے کی جانب شوق سے ہاتھ میں آ کر وہ کانٹا پھول ہو جائے تو پھر بادبانوں پر ہوا ہو مہرباں اور دفعتاً ٹکڑے ٹکڑے ناؤ کا مستول ہو جائے تو پھر نفرتیں بے زاریاں بغض و تعصب دشمنی زندگی کا ...

    مزید پڑھیے

    درون حلقۂ زنجیر ہوں میں

    درون حلقۂ زنجیر ہوں میں شکستہ خواب کی تعبیر ہوں میں مجھے حیرت سے یوں وہ تک رہا ہے کہ جیسے میں نہیں تصویر ہوں میں مری باتیں تو زہریلی بہت ہیں مگر تریاک کی تاثیر ہوں میں میں زندہ ہوں حصار بے حسی میں محبت کی نئی تفسیر ہوں میں اک آئنہ بھی ہوں اور عکس بھی ہوں کہ شہر سنگ کا رہ گیر ...

    مزید پڑھیے

    حصول رزق کے ارماں نکالتے گزری

    حصول رزق کے ارماں نکالتے گزری حیات ریت سے سکے ہی ڈھالتے گزری مسافرت کی صعوبت میں عمر بیت گئی بچی تو پاؤں سے کانٹے نکالتے گزری ہوا نے جشن منائے وہ انتظار کی رات چراغ حجرۂ فرقت سنبھالتے گزری وہ تیز لہر تو ہاتھوں سے لے گئی کشتی پھر اس کے بعد سمندر کھنگالتے گزری رسائی جس کی نہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک گام پہ اک بت بنانا چاہا ہے

    ہر ایک گام پہ اک بت بنانا چاہا ہے جسے بھی چاہا بہت کافرانہ چاہا ہے ہزار قسم کے الزام اور خاموشی تعلقات کو یوں بھی نبھانا چاہا ہے گرائے جانے لگے ہیں درخت ہر جانب کہ میں نے شاخ پہ اک آشیانہ چاہا ہے ہے کیوں عداوت اغیار ہی کا ذکر یہاں چمن تو اہل چمن نے جلانا چاہا ہے حصار نفرت دور ...

    مزید پڑھیے

    گردش مقدر کا سلسلہ جو چل جائے

    گردش مقدر کا سلسلہ جو چل جائے دوسرا عتاب آئے اک بلا جو ٹل جائے حجرۂ گریباں میں ہر جواب روشن ہے بس ذرا نگاہوں کا زاویہ بدل جائے آنسوؤں کے بہنے کا یہ اثر تو ہوتا ہے غم ذرا سا ڈھل جائے دل بھی کچھ سنبھل جائے مسئلوں کی گتھی بھی یوں کہاں سلجھتی ہے اک سرا جو ہاتھ آئے دوسرا نکل جائے اس ...

    مزید پڑھیے

    دلوں میں درد ہی اتنا کشید رکھا ہے

    دلوں میں درد ہی اتنا کشید رکھا ہے کہ آنکھ آنکھ نے آنسو کشید رکھا ہے قتال ظلم و تشدد فساد آگ دھواں ہمارے شہر میں اب کیا مزید رکھا ہے نہ جس سے حل مسائل کی راہ نکلے کوئی اسی کا نام تو گفت و شنید رکھا ہے اڑی ہے جب سے پرندوں کی واپسی کی خبر ہر ایک شخص نے پنجرہ خرید رکھا ہے بتا رہے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    مسافروں کے یہ وہم و گماں میں تھا ہی نہیں

    مسافروں کے یہ وہم و گماں میں تھا ہی نہیں کہ راہبر تو کوئی کارواں میں تھا ہی نہیں سوال یہ ہے کہ پھر آگ لگ گئی کیسے کوئی دیا تو اندھیرے مکاں میں تھا ہی نہیں اٹھا لیے گئے ہتھیار پھر تحفظ کو کہ شہر امن میں کوئی اماں میں تھا ہی نہیں تو لازمہ اسے آنا تھا اس زمیں پر ہی کہ آدمی کا گزر ...

    مزید پڑھیے