Yaqoob Tasawwur

یعقوب تصور

یعقوب تصور کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    مرے چاروں طرف ایک آہنی دیوار کیوں ہے

    مرے چاروں طرف ایک آہنی دیوار کیوں ہے اگر سچا ہوں میں سچ کا مقدر ہار کیوں ہے نشاط و انبساط و شادمانی زیست ٹھہری تو بتلائے کوئی جینا مجھے آزار کیوں ہے مسافت زندگی ہے اور دنیا اک سرائے تو اس تمثیل میں طوفان کا کردار کیوں ہے جہاں سچ کی پذیرائی کے دعویدار ہیں سب اسی بزم سخن میں ...

    مزید پڑھیے

    روبرو بت کے دعا کی بھول ہو جائے تو پھر

    روبرو بت کے دعا کی بھول ہو جائے تو پھر اور پھر وہ ہی دعا مقبول ہو جائے تو پھر میں بڑھاؤں ہاتھ جس کانٹے کی جانب شوق سے ہاتھ میں آ کر وہ کانٹا پھول ہو جائے تو پھر بادبانوں پر ہوا ہو مہرباں اور دفعتاً ٹکڑے ٹکڑے ناؤ کا مستول ہو جائے تو پھر نفرتیں بے زاریاں بغض و تعصب دشمنی زندگی کا ...

    مزید پڑھیے

    درون حلقۂ زنجیر ہوں میں

    درون حلقۂ زنجیر ہوں میں شکستہ خواب کی تعبیر ہوں میں مجھے حیرت سے یوں وہ تک رہا ہے کہ جیسے میں نہیں تصویر ہوں میں مری باتیں تو زہریلی بہت ہیں مگر تریاک کی تاثیر ہوں میں میں زندہ ہوں حصار بے حسی میں محبت کی نئی تفسیر ہوں میں اک آئنہ بھی ہوں اور عکس بھی ہوں کہ شہر سنگ کا رہ گیر ...

    مزید پڑھیے

    حصول رزق کے ارماں نکالتے گزری

    حصول رزق کے ارماں نکالتے گزری حیات ریت سے سکے ہی ڈھالتے گزری مسافرت کی صعوبت میں عمر بیت گئی بچی تو پاؤں سے کانٹے نکالتے گزری ہوا نے جشن منائے وہ انتظار کی رات چراغ حجرۂ فرقت سنبھالتے گزری وہ تیز لہر تو ہاتھوں سے لے گئی کشتی پھر اس کے بعد سمندر کھنگالتے گزری رسائی جس کی نہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک گام پہ اک بت بنانا چاہا ہے

    ہر ایک گام پہ اک بت بنانا چاہا ہے جسے بھی چاہا بہت کافرانہ چاہا ہے ہزار قسم کے الزام اور خاموشی تعلقات کو یوں بھی نبھانا چاہا ہے گرائے جانے لگے ہیں درخت ہر جانب کہ میں نے شاخ پہ اک آشیانہ چاہا ہے ہے کیوں عداوت اغیار ہی کا ذکر یہاں چمن تو اہل چمن نے جلانا چاہا ہے حصار نفرت دور ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 نظم (Nazm)

    عفریت

    وطن کی دھرتی سے دور جب وطن کے مارے برہنہ تن اور تہی شکم کی طلب کی شدت سے ہو کے مجبور جلتے صحرا کی وسعتوں میں مقید نار ہو گئے ہیں نہ طوق آہن نہ بیڑیاں ہیں نہ ہے سلاسل کا بوجھ تن پر جھلستے صحرا کی وسعتوں میں سروں پہ سورج کی چھتریاں ہیں بدن سے آب مشقت بے سکوں کی نہریں رواں دواں ہیں

    مزید پڑھیے

    شام سے پہلے گھر آ جانا

    ہر دن میں وعدہ کرتا ہوں شام سے پہلے گھر آؤں گا ہر دن کوئی نہ کوئی مشکل کوئی نہ کوئی کام ضروری ہے پتھر بن کر میرے کانچ کے وعدے سارے چشم زدن میں کر دیتا ہے ریزہ ریزہ وعدہ کرتے وقت ہمیشہ میں یہ سوچوں اس کی محبت سارے کاموں سے افضل ہے وہ کہ مری غم خوار ہر اک لمحہ ہر پل ہے کام مگر جب سامنے ...

    مزید پڑھیے

    امتحان

    ہجوم رنج و الم کئی پیکروں میں ڈھل کر چہار جانب پہ چھا رہا ہے زمین آتش فشاں ہے اور آسمان سے بارش ستم ہے سمندروں میں غضب کے طوفاں سلگتے جلتے ہوئے کٹھن راستوں میں پتھر ہم ان کے نرغے میں استقامت سے چل رہے ہیں قدم قدم گر رہے ہیں گر کر سنبھل رہے ہیں یہ اس کی چاہت کی آزمائش ہے اور بے لوث و ...

    مزید پڑھیے

    صوت نادیدہ

    نیند پلکوں کے سائباں میں نہیں طائر خواب کر گیا پرواز وادیٔ چشم کے افق سے پرے آنکھ محو تصورات حسین ایک ہلچل سی ذہن و دل میں مچی اور نظر اک مقام ٹکتی نہیں خوشبوؤں کے حصار گردش میں ہے سماعت کچھ اس قدر حساس آنکھ کی پتلیوں کے تھامے ہاتھ دوڑتی ہے ادھر سے اس جانب ایک لمحہ اسے قرار ...

    مزید پڑھیے

    سچ

    میرے چاروں طرف دائرہ دائرہ اک فسوں حیات طرح دار ہے زندگی گامزن ہے اسی نہج پر سچ کی ترویج میں اور لٹکی ہوئی سر پہ تلوار ہے

    مزید پڑھیے