Yaqoob Arif

یعقوب عارف

یعقوب عارف کی غزل

    تھا اس کا جیسا عمل وہ ہی یار میں بھی کروں

    تھا اس کا جیسا عمل وہ ہی یار میں بھی کروں ردائے وقت کو کیا داغدار میں بھی کروں معاف مجھ کو نہ کرنا کسی بھی صورت سے زمانے تجھ کو اگر اشک بار میں بھی کروں ملے جو مجھ کو بھی فرصت غم زمانہ سے کسی کے سامنے ذکر بہار میں بھی کروں جو ڈالے رہتے ہیں چہروں پہ مصلحت کی نقاب کیا ایسے لوگوں ...

    مزید پڑھیے

    وہ راہبر تو نہیں تھا اعادہ کیا کرتا

    وہ راہبر تو نہیں تھا اعادہ کیا کرتا بنا کے راہ میں وہ کوئی جادہ کیا کرتا نہا رہا ہو اجالوں کے جو سمندر میں وہ لے کے ظلمت شب کا لبادہ کیا کرتا ہر ایک شخص جہاں مصلحت سے ملتا ہو وہاں کسی سے کوئی استفادہ کیا کرتا نہ جس میں رنگ نہ خاکہ نہ کوئی عکس جمال بنا کے ایسی میں تصویر سادہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    نہ چارہ گر نہ مسیحا نہ راہبر تھا میں

    نہ چارہ گر نہ مسیحا نہ راہبر تھا میں نظر میں پھر بھی زمانے کی معتبر تھا میں انا پہ حرف نہ آ جائے حق پرستوں کی اٹھائے اپنے ہی نیزے پہ اپنا سر تھا میں سوال یہ نہیں کس نے کیا تھا قتل مجھے سوال یہ ہے کہ کیوں خود سے بے خبر تھا میں جو صبح نو کا اسیری میں دے رہا تھا پیام وہ انقلاب زمانہ ...

    مزید پڑھیے