Yahya Amjad

یحی امجد

یحی امجد کی نظم

    باغوں میں آئے گی کب بہار

    نوحے لکھتے لکھتے یہ دل تھک جاتا ہے بکھرے ہوئے ہیں سب دل والے ہم متوالے تنہا ہیں روشنیوں کے بیٹے تاریکی میں آ کر چمکیں ہم راہوں میں تیار ملیں گے جو یلغار یہاں بھی ہوگی ہم اپنے خوں کے فواروں کو عام کریں گے ایک چراغاں کوچۂ رسوائی میں اک بالائے بام کریں گے ان روزوں میں یہ دل تھک کر سو ...

    مزید پڑھیے

    شب کے سب اسرار تمہارے

    طاقت ساری آپ کے بس میں ساری ذہانت آپ کی ہے ہم مجبور نہتے سارے پھر بھی ہمارے ساتھ ہیں سب تاریخ کے دھارے شب کے سب اسرار تمہارے صبح کا نور ہمارا ہے گم رستوں پر خون کے چھینٹے راہ دکھاتے تارے ہیں

    مزید پڑھیے

    جسم اور سایے

    شہرت اور عزت کے زینے پر چڑھتے فن کار کا سایہ ذلت کے پاتال میں اترا جاتا ہے روتے شہروں دیہاتوں کو چھوڑ کے چوروں کی منڈلی سے مل کر اتراتے بل کھاتے ہو کبھی ذرا تاریخ کا آئینہ بھی دیکھو دیکھو تو کیا شرماتے ہو

    مزید پڑھیے

    خدا گواہ

    خدا گواہ دل اک لمحہ بھی نہیں غافل تمہاری یاد بھی باقی ہے دکھ بھی باقی ہے وہ شام غم بھی اسی طرح دل پہ قائم ہے وہ روز سخت بھی سینے میں درد بن کر ہے جب ایک حملۂ دل تم پہ ظلم کرتا تھا عظیم شہر کے مرکز میں اک اداس سا گھر علاج سے محروم تمہارے دکھ میں تڑپنے کو دیکھ کر چپ تھا تو سارے شاہی ...

    مزید پڑھیے

    بحث تو اپنی ہی نہیں

    بحث تو اپنی ہے ہی نہیں طاقت والوں سے سارے دعوے ان کے الگ ہیں اپنی دلیلیں الگ سی ہیں وہ کہتے ہیں ان کا قہر قیامت بن کر کڑکے گا ہم کہتے ہیں موت کا کھیل ہمیں جی جان سے پیارا ہے اور اس کھیل کے ہوتے ہوئے بستی میں اجیارا ہے

    مزید پڑھیے