Waseem Barelvi

وسیم بریلوی

مقبول عام شاعر

Popular poet having vast mass following.

وسیم بریلوی کی غزل

    دعا کرو کہ کوئی پیاس نذر جام نہ ہو

    دعا کرو کہ کوئی پیاس نذر جام نہ ہو وہ زندگی ہی نہیں ہے جو ناتمام نہ ہو جو مجھ میں تجھ میں چلا آ رہا ہے صدیوں سے کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو کوئی چراغ نہ آنسو نہ آرزوئے سحر خدا کرے کہ کسی گھر میں ایسی شام نہ ہو عجیب شرط لگائی ہے احتیاطوں نے کہ تیرا ذکر کروں اور تیرا نام نہ ...

    مزید پڑھیے

    اسے سمجھنے کا کوئی تو راستہ نکلے

    اسے سمجھنے کا کوئی تو راستہ نکلے میں چاہتا بھی یہی تھا وہ بے وفا نکلے کتاب ماضی کے اوراق الٹ کے دیکھ ذرا نہ جانے کون سا صفحہ مڑا ہوا نکلے میں تجھ سے ملتا تو تفصیل میں نہیں جاتا مری طرف سے ترے دل میں جانے کیا نکلے جو دیکھنے میں بہت ہی قریب لگتا ہے اسی کے بارے میں سوچو تو فاصلہ ...

    مزید پڑھیے

    مجھے تو قطرہ ہی ہونا بہت ستاتا ہے

    مجھے تو قطرہ ہی ہونا بہت ستاتا ہے اسی لیے تو سمندر پہ رحم آتا ہے وہ اس طرح بھی مری اہمیت گھٹاتا ہے کہ مجھ سے ملنے میں شرطیں بہت لگاتا ہے بچھڑتے وقت کسی آنکھ میں جو آتا ہے تمام عمر وہ آنسو بہت رلاتا ہے کہاں پہنچ گئی دنیا اسے پتہ ہی نہیں جو اب بھی ماضی کے قصے سنائے جاتا ہے اٹھائے ...

    مزید پڑھیے

    وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا

    وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا برے اچھے ہوں جیسے بھی ہوں سب رشتے یہیں کے ہیں کسی کو ساتھ دنیا سے کوئی لے کر نہیں جاتا گھروں کی تربیت کیا آ گئی ٹی وی کے ہاتھوں میں کوئی بچہ اب اپنے باپ کے اوپر نہیں جاتا کھلے تھے شہر میں سو در مگر ...

    مزید پڑھیے

    تحریر سے ورنہ مری کیا ہو نہیں سکتا

    تحریر سے ورنہ مری کیا ہو نہیں سکتا اک تو ہے جو لفظوں میں ادا ہو نہیں سکتا آنکھوں میں خیالات میں سانسوں میں بسا ہے چاہے بھی تو مجھ سے وہ جدا ہو نہیں سکتا جینا ہے تو یہ جبر بھی سہنا ہی پڑے گا قطرہ ہوں سمندر سے خفا ہو نہیں سکتا گمراہ کئے ہوں گے کئی پھول سے جذبے ایسے تو کوئی راہنما ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری راہ میں مٹی کے گھر نہیں آتے

    تمہاری راہ میں مٹی کے گھر نہیں آتے اسی لئے تو تمہیں ہم نظر نہیں آتے محبتوں کے دنوں کی یہی خرابی ہے یہ روٹھ جائیں تو پھر لوٹ کر نہیں آتے جنہیں سلیقہ ہے تہذیب غم سمجھنے کا انہیں کے رونے میں آنسو نظر نہیں آتے خوشی کی آنکھ میں آنسو کی بھی جگہ رکھنا برے زمانے کبھی پوچھ کر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تو سمجھتا ہے کہ رشتوں کی دہائی دیں گے

    تو سمجھتا ہے کہ رشتوں کی دہائی دیں گے ہم تو وہ ہیں ترے چہرے سے دکھائی دیں گے ہم کو محسوس کیا جائے ہے خوشبو کی طرح ہم کوئی شور نہیں ہیں جو سنائی دیں گے فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف آپ کیا صاحب عدالت میں صفائی دیں گے پچھلی صف میں ہی سہی ہے تو اسی محفل میں آپ دیکھیں گے تو ہم ...

    مزید پڑھیے

    کھل کے ملنے کا سلیقہ آپ کو آتا نہیں

    کھل کے ملنے کا سلیقہ آپ کو آتا نہیں اور میرے پاس کوئی چور دروازہ نہیں وہ سمجھتا تھا اسے پا کر ہی میں رہ جاؤں گا اس کو میری پیاس کی شدت کا اندازہ نہیں جا دکھا دنیا کو مجھ کو کیا دکھاتا ہے غرور تو سمندر ہے تو ہے میں تو مگر پیاسا نہیں کوئی بھی دستک کرے آہٹ ہو یا آواز دے میرے ہاتھوں ...

    مزید پڑھیے

    میں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا

    میں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا لیکن مری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ لیکن ترے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا جاتی ہے چلی جائے یہ مے خانے کی رونق کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا دنیا کی طلب ہے تو قناعت ہی نہ کرنا قطرے ہی سے خوش ہو تو سمندر ...

    مزید پڑھیے

    لہو نہ ہو تو قلم ترجماں نہیں ہوتا

    لہو نہ ہو تو قلم ترجماں نہیں ہوتا ہمارے دور میں آنسو زباں نہیں ہوتا جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا یہ کس مقام پہ لائی ہے میری تنہائی کہ مجھ سے آج کوئی بد گماں نہیں ہوتا بس اک نگاہ مری راہ دیکھتی ہوتی یہ سارا شہر مرا میزباں نہیں ہوتا ترا خیال نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4