مجھ کو دنیا سے بے خبر کر دے
مجھ کو دنیا سے بے خبر کر دے دیکھ لے مجھ کو معتبر کر دے صبح کو دے دے شام کی رونق شام کو درد کی سحر کر دے دن چڑھے لے لے جاں بھلے میری جسم روشن تو رات بھر کر دے اس کی رگ میں بہے لہو میرا عشق انجام ہم سفر کر دے
مجھ کو دنیا سے بے خبر کر دے دیکھ لے مجھ کو معتبر کر دے صبح کو دے دے شام کی رونق شام کو درد کی سحر کر دے دن چڑھے لے لے جاں بھلے میری جسم روشن تو رات بھر کر دے اس کی رگ میں بہے لہو میرا عشق انجام ہم سفر کر دے
اک ادھوری سی شام باقی ہے لمحوں سے انتقام باقی ہے سارے دشمن کو لکھ لیا اس نے صرف میرا ہی نام باقی ہے جھومتے پھر رہے ہیں بس وہ ہی جن کے ہاتھوں میں جام باقی ہے کوئی صورت نہیں مگر اس کا کورے کاغذ پہ نام باقی ہے تم کہو گے تو وقت لے لوں ذرا صبح باقی ہے شام باقی ہے
جب سے میں نے عشق کا پیراہن پہنا ہے سورج مجھ سے آنکھ چراتا پھرتا ہے اس کی باتیں مجھ سے تو اب پوچھو نا حال اس کا بھی بالکل میرے جیسا ہے کیسے اس کو دل کی حالت سمجھاؤں بات کروں تو آنکھ چرانے لگتا ہے کچھ نہ کہنا اس کی بھی مجبوری ہے شرم و حیا کا دامن اس نے تھاما ہے دیکھ اسے سب ذکر ...
آج جس پر یہ پردہ داری ہے کل اسی کی تو دعوے داری ہے آئینہ مجھ سے کہہ رہا ہے یہی میرے چہرے پہ بے قراری ہے آج وعدہ وہ پھر نبھائے گا وادی و گل پہ کیا خماری ہے تیری آنکھیں یہ صاف کہتی ہے رات کتنی حسیں گزاری ہے