آج جس پر یہ پردہ داری ہے

آج جس پر یہ پردہ داری ہے
کل اسی کی تو دعوے داری ہے


آئینہ مجھ سے کہہ رہا ہے یہی
میرے چہرے پہ بے قراری ہے


آج وعدہ وہ پھر نبھائے گا
وادی و گل پہ کیا خماری ہے


تیری آنکھیں یہ صاف کہتی ہے
رات کتنی حسیں گزاری ہے