Waqar Fatmi

وقار فاطمی

وقار فاطمی کی غزل

    برسوں بعد ملا تو اس نے ہم سے پوچھا کیسے ہو

    برسوں بعد ملا تو اس نے ہم سے پوچھا کیسے ہو شہر نگاراں کے مرکز تھے تنہا تنہا کیسے ہو وہ کچھ میرے درد کو بانٹے میں کچھ اس کے غم لے لوں ایسا ہو تو کیا اچھا ہو لیکن ایسا کیسے ہو چہرے پر جو ہریالی تھی وہ شہروں میں زرد ہوئی گاؤں کا مکھیا پوچھ رہا ہے میرے بھیا کیسے ہو اٹھتی ہوئی موجوں ...

    مزید پڑھیے

    موسم کو بھی وقارؔ بدل جانا چاہئے

    موسم کو بھی وقارؔ بدل جانا چاہئے کھولی ہیں کھڑکیاں تو ہوا آنا چاہئے بے جا انا سے اور الجھتے ہیں مسئلے آیا نہیں ہے وہ تو مجھے جانا چاہئے سچ کو بھی جھوٹ جھوٹ کو سچ کر دکھاؤ گے بس اک امیر شہر سے یارانہ چاہئے سورج کا فیض عام ہے پر وہ بھی کیا کرے روزن تو گھر میں کوئی نظر آنا ...

    مزید پڑھیے

    جو سوچتے رہے وہ کر گزرنا چاہتے ہیں

    جو سوچتے رہے وہ کر گزرنا چاہتے ہیں کہ خواب آنکھوں سے گھر میں اترنا چاہتے ہیں سنائی دیتی ہے ہر سمت سے نوید بقا امیر شہر کہ جب لوگ مرنا چاہتے ہیں پرندہ خوف زدہ ہیں کہ پالنے والے پروں کے ساتھ زباں بھی کترنا چاہتے ہیں زمیں کی آرزو سیراب ہو کسی صورت سمندروں میں جزیرے ابھرنا چاہتے ...

    مزید پڑھیے