رائیگاں اوقات کھو کر حیف کھانا ہے عبث
رائیگاں اوقات کھو کر حیف کھانا ہے عبث خوب رویوں سے جہاں کے دل لگانا ہے عبث کارگر ہوگا ترا افسوں یہ باور ہے تجھے اس پری پر اے دل وحشی دوانا ہے عبث جیتے پھر آنے کی پہلے رکھ توقع دل سے دور ورنہ کوچے میں ستم گاروں کے جانا ہے عبث خاک ہو کر ایک صورت ہے گدا و شاہ کی گر موافق تجھ سے اے ...