Wakil Akhtar

وکیل اختر

وکیل اختر کی غزل

    میں نام لیوا ہوں تیرا تو معتبر کر دے

    میں نام لیوا ہوں تیرا تو معتبر کر دے حیات خوب نہیں ہے تو مختصر کر دے حصار ذات کے زندان بے اماں کی خیر غبار راہ کی صورت ہی منتشر کر دے دروغ مصلحت‌ آمیز کے خرابے میں انا پسند مزاجوں کو در بدر کر دے گئے دنوں کو تلاشیں کہ اگلی رت میں کھلیں تو موسموں کو ہواؤں سے با خبر کر دے لباس ...

    مزید پڑھیے

    اپنی نا کردہ گناہی کی سزا ہو جیسے

    اپنی نا کردہ گناہی کی سزا ہو جیسے ہم سے اس شہر میں ہر ایک خفا ہو جیسے سوچتے چہروں پہ جلتے ہوئے آثار حیات یک بہ یک وقت کا عرفان ہوا ہو جیسے یہ دھندلکے یہ در و بام کا گمبھیر سکوت چاندنی رات میں مہتاب لٹا ہو جیسے تجھ سے ملنے کی تمنا تری قربت کا خیال ریگ زاروں میں کوئی پھول کھلا ہو ...

    مزید پڑھیے

    اب نیند کہاں آنکھوں میں شعلہ سا بھرا ہے

    اب نیند کہاں آنکھوں میں شعلہ سا بھرا ہے یہ تپتے ہوئے ہونٹوں کو تکنے کی سزا ہے آشوب جہاں گزراں نے یہ کیا ہے اس دور کا ہر فرد و بشر آبلہ پا ہے اے شبنم گریاں تجھے اس کا بھی پتا ہے کلیوں کا تبسم بھی بہت درد نما ہے ہر اہل ہوس زینت خلوت کدۂ ناز ہر اہل وفا آج سر دار کھڑا ہے اک نور مجسم ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو تنہائی میں گھبرائے بہت

    یوں تو تنہائی میں گھبرائے بہت مل کے لوگوں سے بھی پچھتائے بہت ایسے لمحے زیست میں آئے بہت ہم نے دھوکے جان کر کھائے بہت یہ نہیں معلوم کہ کیا بات تھی رو رہے تھے میرے ہمسائے بہت تم ہی بتلا دو کہ کوئی کیا کرے زندگی جب بوجھ بن جائے بہت ہم فراز دار تک تنہا گئے دو قدم تک لوگ ساتھ آئے ...

    مزید پڑھیے

    آپ سے جھک کے جو ملتا ہوگا

    آپ سے جھک کے جو ملتا ہوگا اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا نکتہ چینوں پہ جو ہنستا ہوگا اس کو اپنے پہ بھروسا ہوگا وہ جو ویران پھرا کرتا ہے اس کے سر میں کوئی صحرا ہوگا تم نہ سمجھو گے مری بات مگر سوچنے والا سمجھتا ہوگا وہ جو مرنے پہ تلا ہے اخترؔ اس نے جی کر بھی تو دیکھا ہوگا

    مزید پڑھیے

    بجھا بھی جائے کوئی آ کے آندھیوں کی طرح

    بجھا بھی جائے کوئی آ کے آندھیوں کی طرح کہ جل رہا ہوں کئی یگ سے میں دیوں کی طرح وہ دوستوں کی طرح ہے نہ دشمنوں کی طرح میں جس کو دیکھ کے حیراں ہوں آئینوں کی طرح میں اس کو دیکھ تو سکتا ہوں چھو نہیں سکتا وہ میرے پاس بھی ہوتا ہے فاصلوں کی طرح وہ آ بھی جائے تو اس کو کہاں بٹھاؤں گا میں ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو ویران پھرا کرتا ہے (ردیف .. ا)

    وہ جو ویران پھرا کرتا ہے اس کے سر میں کوئی صحرا ہوگا تجھ سے دل تیرے پرستاروں کا ٹوٹتے ٹوٹتے ٹوٹا ہوگا جھک کے جو آپ سے ملتا ہوگا اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا وہ جو مرنے پہ تلا ہے اخترؔ اس نے جی کر بھی تو دیکھا ہوگا

    مزید پڑھیے

    زندگی دست تہہ سنگ رہی ہے برسوں

    زندگی دست تہہ سنگ رہی ہے برسوں یہ زمیں ہم پہ بہت تنگ رہی ہے برسوں تم کو پانے کے لیے تم کو بھلانے کے لیے دل میں اور عقل میں اک جنگ رہی ہے برسوں اپنے ہونٹوں کی دہکتی ہوئی سرخی بھر دو داستاں عشق کی بے رنگ رہی ہے برسوں دل نے اک چشم زدن میں ہی کیا ہے وہ کام جس پہ دنیائے خرد دنگ رہی ہے ...

    مزید پڑھیے

    جہالت کا منظر جو راہوں میں تھا

    جہالت کا منظر جو راہوں میں تھا وہی بیش و کم درس گاہوں میں تھا جو خنجر بکف قتل گاہوں میں تھا وہی وقت کے سربراہوں میں تھا عجب خامشی اس کے ہونٹوں پہ تھی عجب شور اس کی نگاہوں میں تھا اسے اس لئے مار ڈالا گیا کہ وہ زیست کے خیر خواہوں میں تھا ہماری نظر سے وہ کل گر گیا جو کل تک ہماری ...

    مزید پڑھیے

    کواڑ بند بھی ہے اور نیم وا بھی ہے

    کواڑ بند بھی ہے اور نیم وا بھی ہے وہ روپ انوپ ذرا خوش ذرا خفا بھی ہے شریک راہ وفا گل سرشت ماہ بہ کف قتیل گردش دوراں برہنہ پا بھی ہے حقیقتوں سے فسانوں کو کیا علاقہ ہے خدا نہیں بھی ہے لوگو مگر خدا بھی ہے ہجوم نغمہ و نکہت میں یوں تو ہوتا ہے خطا معاف خطا تو نہیں خطا بھی ہے وہی غزل کی ...

    مزید پڑھیے