Waheed Quraishi

وحید قریشی

اکستان کے نامور ادیب، شاعر، نقاد، محقق، معلم اور ماہر لسانیات

وحید قریشی کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    کوئی نہ چاہنے والا تھا حسن رسوا کا

    کوئی نہ چاہنے والا تھا حسن رسوا کا دیار غم میں رہا دل کو پاس دنیا کا فریب صبح بہاراں بھی ہے قبول ہمیں کوئی نقیب تو آیا پیام فردا کا ہم آج راہ تمنا میں جی کو ہار آئے نہ درد و غم کا بھروسا رہا نہ دنیا کا تری وفا نے دیا درس آگہی ہم کو ترے جنوں نے کیا کام چشم بینا کا الجھ کے رہ گئی ہر ...

    مزید پڑھیے

    زمانے پھر نئے سانچے میں ڈھلنے والا ہے

    زمانے پھر نئے سانچے میں ڈھلنے والا ہے ذرا ٹھہر کہ نتیجہ نکلنے والا ہے ابھی ہجوم عزیزاں ہے زیر تخت مراد مگر زمانہ چلن تو بدلنے والا ہے ہوئی ہے ناقۂ لیلیٰ کو سارباں کی تلاش جلوس شہر کی گلیوں میں چلنے والا ہے ضمیر اپنی تمنا کو پھر اگل دے گا سمندروں سے یہ سونا اچھلنے والا ہے نیا ...

    مزید پڑھیے

    غم کے ہاتھوں شکر خدا ہے عشق کا چرچا عام نہیں

    غم کے ہاتھوں شکر خدا ہے عشق کا چرچا عام نہیں گلی گلی پتھر پڑتے ہوں ہم ایسے بدنام نہیں وہ بھی کیا دن تھے جن روزوں بے فکری میں سوتے تھے اب کیسی افتاد پڑی ہے چین نہیں آرام نہیں دل کے اجڑتے ہی آنکھوں نے حیف یہ عالم دیکھ لیا جلوہ سر رہ کوئی نہیں ہے کوئی بروئے بام نہیں جس کے اثر سے بے ...

    مزید پڑھیے

    جدھر نگاہ اٹھی کھنچ گئی نئی دیوار

    جدھر نگاہ اٹھی کھنچ گئی نئی دیوار طلسم ہوش ربا میں ہے زندگی کا شمار ہر ایک سمت مسلط ہے گھور تاریکی بجھے بجھے نظر آئے تمام شہر و دیار یہ شہر جیسے چڑیلوں کا کوئی مسکن ہو زبانیں گنگ ہیں ترساں ہیں کوچہ و بازار خود اپنی ذات میں ہم اس طرح مقید ہیں نہ دل میں تاب و تواں ہے نہ جرأت ...

    مزید پڑھیے

    ہمیشہ خون شہیداں کے رنگ سے آباد

    ہمیشہ خون شہیداں کے رنگ سے آباد یہ کربلائے معلیٰ یہ بصرہ و بغداد جہاں کو پھر سے نوید بہار دیتے ہیں ابو غریب کی جیلوں کے کچھ ستم ایجاد حیات و مرگ کے سب مرحلے تمام ہوئے کفن لپیٹ کے نکلے ہیں ہرچہ باد آباد پرانی بستیاں سب خاک و خوں میں غلطاں ہیں ''کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں ...

    مزید پڑھیے

3 نظم (Nazm)

    پس دیوار زنداں

    پس دیوار زنداں پس دیوار زنداں کون رہتا ہے ہمیں معلوم کیا ہم تو اسی اک آگہی کی آگ میں جلتے ہیں مرتے ہیں کہ دن کو رات کرتے ہیں کبھی اک روشنی تھی اور ستاروں کی چمک تھی تازگی تھی مگر اب باب زنداں وا نہیں ہوتا ہراساں شام کی تنہائیاں ہیں ہمیں اب کیا خبر کون رہتا ہے پس دیوار زنداں کون ...

    مزید پڑھیے

    صفا مروہ

    صفا مروہ صفا و مروہ کے درمیاں دوڑتی امنگو تمہیں خبر ہے تمہارے اجداد کے نقوش برہنہ پائی تمہارے قدموں کے نقش گر ہیں تم اپنے قدموں کی پیروی میں رواں دواں ہو خود اپنا عرفان ڈھونڈتے ہو ہجوم میں چل کے اپنی بقاء کا سامان ڈھونڈتے ہو دلوں کے اصنام ریزہ ریزہ تم اپنے قدموں پہ چل رہے ہو دلوں ...

    مزید پڑھیے

    دعا

    دعا دور تک ایک خلا لب پہ ہے حرف دعا دشت محروم صدا کوئی آواز نہ رنگ کوئی خواہش نہ امنگ دل میں اک سرد سی جنگ آنکھ سے اشک رواں کشش باغ جناں میری اوقات کہاں اپنی آواز کا ڈر شعلۂ ساز کا ڈر دل کے ہر راز کا ڈر ہر طرف جلوہ فگن ایک خاموش کرن ہر فشاں روح کہ تن آج کیسے ہو بیاں تجھ پہ ہر بات ...

    مزید پڑھیے