خوشبو ہے کبھی گل ہے کبھی شمع کبھی ہے
خوشبو ہے کبھی گل ہے کبھی شمع کبھی ہے وہ آتش سیال جو سینے میں بھری ہے بادہ طلبی شوق کی دریوزہ گری ہے صد شکر کہ تقدیر ہی یاں تشنہ لبی ہے غنچوں کے چٹکنے کا سماں دل میں ابھی ہے ملنے میں جو اٹھ اٹھ کے نظر ان کی جھکی ہے اب ضبط سے کہہ دے کہ یہ رخصت کی گھڑی ہے اے وحشت غم دیر سے کیا سوچ رہی ...