وحید احمد کی نظم

    علاج بالمثل

    نشتر زخم لگاتا ہے تو نشتر سے کھلواتا ہوں سلواتا ہوں پھنیر نیل اتارتا ہے تو منکے میں رسواتا ہوں کھنچواتا ہوں پانی میں گرمی گھولتا ہے تو پانی کا ٹھنڈا پیالہ منگواتا ہوں جب شب زندہ داری میں مے چڑھتی ہے تو صبح صبوحی کی سیڑھی لگواتا ہوں عورت چرکا دیتی ہے تو عورت کو بلواتا ...

    مزید پڑھیے

    ہم شاعر ہوتے ہیں

    ہم پیدا کرتے ہیں ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں تو شکلیں بنتی ہیں ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں جو مٹی تھے وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں ہم شاعر ہوتے ہیں کنعان میں رہتے ہیں جب جلوہ کرتے ہیں تو ششدر انگشتوں کو پوریں نشتر دیتی ہیں پھر خون ٹپکتا ہے جو سرد ...

    مزید پڑھیے

    خوف نامہ

    ناف کٹتی ہے زخم جلتا ہے خوف دھڑکن کے ساتھ چلتا ہے ہر رگ جاں میں سرسراتا ہے سانس کے ساتھ آتا جاتا ہے کھال کو چھال سے ملاتی ہے سنسنی رونگٹے بناتی ہے طاق جاں میں چراغ رکھتا ہے خوف وحشت کا تیل چکھتا ہے سجدۂ غم میں گر گیا زاہد سرسراتی جبیں میں خوف لیے ہو گیا انگبین سے نمکین ذائقہ آستیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2