وحید احمد کی نظم

    تنہائی مجھے دیکھتی ہے

    یہ ہوتا ہے کوئی مانے نہ مانے یہ تو ہوتا ہے کسی پھیلے ہوئے لمحے کسی سمٹے ہوئے دن یا اکیلی رات میں ہوتا ہے سب کے ساتھ ہوتا ہے بدن کے خون کا لوہا خیالوں کے الاؤ میں ابل کر سرخ نیزے کی انی کو سر کی جانب پھینکتا ہے اور پھر شہتیر گر جاتا ہے جس پر خود فریبی پتلی اینٹوں کی چنائی کرتی رہتی ...

    مزید پڑھیے

    خود رو دلیلیں

    وہ کیا تھا قہقہہ تھا چیخ تھی چنگھاڑ تھی یا دہاڑ تھی؟ اس نے سماعت چیرتی آواز کا گولا اترتی رات کی بھیگی ہوئی پہنائی میں داغا تو میرے پاؤں کے نیچے زمین چلنے لگی یہ تم نے کیا کیا؟ میری دبی آواز نے پوچھا تو وہ اک گھونٹ پانی سے پھٹی آواز کو سی کر کسی اندھے کنویں کی تہہ سے بولا مجھے جب ...

    مزید پڑھیے

    شفافیاں

    ہمیں تم مسکراہٹ دو تمہیں ہم کھلکھلاتے روز و شب دیں گے یہ کیسے ہو کہ تم بوچھاڑ دو تو ہم تمہیں جل تھل نہ دے دیں اور صحراؤں کو فرش آب نہ کر دیں ہمارا دھیان رکھو تم تمہیں دنیا میں رکھیں گے ہم اپنی آرزؤں کی یہ کیسے ہو کہ تم سوچا کرو اور ہم تمہاری سوچ کو تجسیم نہ کر دیں مروج چاہتوں کے بے ...

    مزید پڑھیے

    کھلونے

    (تیسری دنیا کے تمام لوگوں کے نام) عجب حادثہ ہے کہ بچپن میں ہم جن کھلونوں سے کھیلے تھے اب وہ کھلونے ہمارے ہی حالات سے کھیلتے ہیں وہ نازک مجسمے وہ رنگین گڑیائیں طیارے پستول فوجی، سپاہی کبھی جو ہمارے اشاروں کے محتاج تھے آفریں تجھ پہ معیار گردش! کہ اب وہ کھلونے ہمیں چابیاں بھر رہے ...

    مزید پڑھیے

    فارغ

    GABRIEL GARCIAMARCUEZ کے انداز میں) جب وہ پیدا ہوا تو اس کی دونوں آنکھیں دہک رہی تھیں دونوں پپوٹے پھٹے ہوئے تھے پتلی کی دیوار سے لٹکے آنکھوں کے پردے آگے سے ہٹے ہوئے تھے جب اس کی آنکھیں ہلتیں تو دیواروں پہ ان کی لو ہلنے لگتی تھی وہ پیدا ہونے سے پہلے سارے دھونے دھو آیا تھا اپنے جنم کا سارا ...

    مزید پڑھیے

    آباد ویرانیاں

    وہ دستکیں جو تمہاری پوروں نے ان دروں میں انڈیل دی ہیں وہ آج بھی ان کے چوب ریشوں میں جاگتی ہیں تمہارے قدموں کی چاپ چپ ساعتوں میں بھی ایک ایک ذرے میں بولتی ہے تمہارے لہجے کے میٹھے گھاؤ سے آج بھی میرے گھر کا کڑیل چٹان سینہ چھنا ہوا ہے کوئی نہ جانے کہ ہنستے بستے گھروں کے اندر بھی گھر ...

    مزید پڑھیے

    خاکے

    (سچے لوگوں کے نام) عجیب ماں ہو تم اپنے بچوں کو مارتی ہو تو اس خطا پر کہ وہ حکومت کی وحشتوں کے خلاف نکلے جلوس کے ساتھ جا رہے تھے تم اب پریشان ہو رہی ہو میں آنے والی گھڑی کے بارے میں سوچتا ہوں جب ایک موسم کئی کئی سال تک رہے گا تم اپنے ہاتھوں سے مرے شانے ہلا ہلا کر کہو گی باہر نکل کے ان ...

    مزید پڑھیے

    شام کے دن رات

    شام میں غار تھا غار میں رات تھی رات کے نم اندھیرے میں اک اجنبیت کا احساس تھا چلتی سانسوں کی ہلتی ہوئی سطح پر وقت کی ناؤ ٹھہری ہوئی تھی سنسناتے ہوئے نم اندھیرے میں پوریں دھڑکنے لگیں غار میں محو پرواز پلکوں کے پنچھی الجھنے لگے غار میں شام تھی چند لمحوں میں صدیاں بسر کر کے جب غار ...

    مزید پڑھیے

    پچاسی سال نیچے گر گئے

    ضعیفی کی شکن آلود چادر سے بدن ڈھانپے وہ اپنی نوجواں پوتی کے ساتھ آہستہ آہستہ سڑک کے ایک جانب چل رہا تھا گماں ہوتا تھا جیسے دھوپ کے کاندھے پہ چھاؤں ہاتھ رکھے چل رہی ہے چیختی ایڑیوں پر کڑکڑاتی ہڈیاں گاڑے ہوئے وہ جسم کا ملبہ اٹھائے جا رہا تھا اگرچہ پاؤں جنبش کر رہے تھے مگر بوڑھی کمر ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہیں کیا لکھیں

    سماعتیں بین کر رہی ہیں کہ لوگ ہر چند بولتے ہیں مگر کچھ ایسے کہ جیسے ان کی زبان و لب کے وہ سارے حصے جو برملا گفتگو کی سچی ادائیگی کے لیے بنائے گئے تھے مفلوج ہو گئے ہیں بصر خراشی کی انتہا ہے کہ ساری باتیں جو ان کہی ہیں تمام چہروں کی لوح محفوظ پر لکھی ہیں کوئی بتاؤ کہ جب کسی کی زبان ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2