Vafa Barahi

وفا براہی

وفا براہی کی غزل

    ممکن نہیں ہے اپنے کو رسوا وفا کرے

    ممکن نہیں ہے اپنے کو رسوا وفا کرے دنیائے بے ثبات کی خاطر دعا کرے نور وجود اور اگر حوصلہ کرے شمع حیات جل کے بھی کچھ لو دیا کرے مر مر کے کوئی کب تلک آخر جیا کرے کیوں ہر نفس سے زیست کے طعنے سنا کرے جب کوشش تمام بھی رہ جائے ناتمام اے حاصل حیات بتا کوئی کیا کرے جو غم نصیب‌ یار ہو خود ...

    مزید پڑھیے

    راہ الفت کی آن باقی ہے

    راہ الفت کی آن باقی ہے کچھ مٹی کچھ تکان باقی ہے آہ سوزاں نے سب کو پھونک دیا کس طرح آسمان باقی ہے زخم دل مندمل ہوا لیکن ایک دھندلا نشان باقی ہے نہ جگر ہے نہ دل ہے پہلو میں سانس چلتی ہے جان باقی ہے جان دے دو وفاؔ محبت میں آخری امتحان باقی ہے

    مزید پڑھیے

    وہی حادثوں کے قصے وہی موت کی کہانی

    وہی حادثوں کے قصے وہی موت کی کہانی ابھی دسترس سے باہر ہے شعور زندگانی جو مٹا کے اپنی ہستی بنا غم گسار صحرا اسے راس کیسے آتی ترے در کی پاسبانی وہی شخص لاابالی ہوا منکر حقیقت جسے چلمنوں کی سازش سے ملی تھی بد گمانی نہ غبار کارواں ہے نہ نشان راہ منزل کوئی عکس ماورا کی کرے کیسے ...

    مزید پڑھیے

    حقیقت سے جو آشنا ہو گیا

    حقیقت سے جو آشنا ہو گیا قیود ہوس سے رہا ہو گیا نقوش عمل کو مٹا کر کوئی امیر‌ طلسم دعا ہو گیا وہ قید تصور سے آزاد ہے لطافت کا جو آئنہ ہو گیا تہی دامنی سے پشیماں تھے ہم وہ تر دامنی پر خفا ہو گیا ہے چہروں پہ کیوں چھائی پژمردگی شگفتہ دلوں کو یہ کیا ہو گیا جو خود خالق مدعا تھا ...

    مزید پڑھیے