راہ الفت کی آن باقی ہے
راہ الفت کی آن باقی ہے
کچھ مٹی کچھ تکان باقی ہے
آہ سوزاں نے سب کو پھونک دیا
کس طرح آسمان باقی ہے
زخم دل مندمل ہوا لیکن
ایک دھندلا نشان باقی ہے
نہ جگر ہے نہ دل ہے پہلو میں
سانس چلتی ہے جان باقی ہے
جان دے دو وفاؔ محبت میں
آخری امتحان باقی ہے