Tauqeer Abbas

توقیر عباس

توقیر عباس کی غزل

    اپنے منظر سے جدا تھا اک دن

    اپنے منظر سے جدا تھا اک دن پانی صحرا میں کھڑا تھا اک دن نیند اڑتے ہوئے قالین پہ تھی سامنے شہر بلا تھا اک دن کئی صدیوں میں نہیں آئے گا اس نے خط میں جو لکھا تھا اک دن پھر یہی بات نہ میں بھول سکا میں اسے بھول گیا تھا اک دن اک مسرت بھرا دن راکھ ہوا ہاتھ سے پھول گرا تھا اک ...

    مزید پڑھیے

    وہ روشنی جو شفق کا لباس چھوڑ گئی

    وہ روشنی جو شفق کا لباس چھوڑ گئی مرے لیے تو وہ لمحے اداس چھوڑ گئی بہار درد بھرا اقتباس چھوڑ گئی ہر اک شجر کا بدن بے لباس چھوڑ گئی عجیب لہر میں ہم نے ہوا کا ساتھ دیا عجیب موڑ پہ اب غم شناس چھوڑ گئی نسیم صبح گلوں کو گداز دیتی رہی مگر دلوں کی فضا کو اداس چھوڑ گئی پھر اس سے اگلا سفر ...

    مزید پڑھیے

    ایک ٹہنی سے برگ ٹوٹا ہے

    ایک ٹہنی سے برگ ٹوٹا ہے ساری شاخوں سے خون پھوٹا ہے اب تو قسمت پہ چھوڑ دے ملنا تیز پانی میں ہاتھ چھوٹا ہے میں نے پھولوں پہ ہاتھ رکھا تھا کیوں ہتھیلی سے خون پھوٹا ہے وقت کر دے گا فیصلہ اس کا کون سچا ہے کون جھوٹا ہے ہنسنے والے کو کیا خبر اس کی مجھ پہ کیسا پہاڑ ٹوٹا ہے اس کے فن میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے آگ کیسی آئنوں میں سو رہی تھی

    نہ جانے آگ کیسی آئنوں میں سو رہی تھی دھواں بھی اٹھ رہا تھا روشنی بھی ہو رہی تھی لہو میری نسوں میں بھی کبھی کا جم چکا تھا بدن پر برف کو اوڑھے ندی بھی سو رہی تھی چمکتے برتنوں میں خون گارا ہو رہا تھا مری آنکھوں میں بیٹھی کوئی خواہش رو رہی تھی ہماری دوستی میں بھی دراڑیں پڑ رہی ...

    مزید پڑھیے

    ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا

    ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا دوستوں کو کہاں پکارا تھا چھوڑ آیا تھا میز پر چائے یہ جدائی کا استعارا تھا روح دیتی ہے اب دکھائی مجھے آئینہ آگ سے گزارا تھا میری آنکھوں میں آ کے راکھ ہوا جانے کس دیس کا ستارا تھا وہ تو صدیوں سے میری روح میں تھا عکس پتھر سے جو ابھارا تھا زندگی اور ...

    مزید پڑھیے