طارق نعیم کی غزل

    ہوا کا حکم بھی اب کے نظر میں رکھا جائے

    ہوا کا حکم بھی اب کے نظر میں رکھا جائے کسی بھی رخ پہ دریچہ نہ گھر میں رکھا جائے یہ کائنات ابھی تک مرے طواف میں ہے عجب نہیں اسے یوں ہی سفر میں رکھا جائے میں سنگ سادہ ہوں لیکن مری یہ حسرت ہے مکان دوست کے دیوار و در میں رکھا جائے یہ جل بجھے گا اسی زعم آگہی کے سبب دیے کو اور نہ باب ...

    مزید پڑھیے

    اب یہ ہنگامۂ دنیا نہیں دیکھا جاتا

    اب یہ ہنگامۂ دنیا نہیں دیکھا جاتا روز اپنا ہی تماشا نہیں دیکھا جاتا سیر ہستی میں کہیں اور بھی گھوم آتے ہیں ایک ہی شہر تمنا نہیں دیکھا جاتا خنکئ لمس رفاقت ہی بہت ہوتی ہے دھوپ ہم دم ہو تو سایہ نہیں دیکھا جاتا کھول دیتے ہیں پلٹ آنے پہ دروازۂ دل آنے والے کا ارادہ نہیں دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    اگر کچھ بھی مرے گھر سے دم رخصت نکلتا ہے

    اگر کچھ بھی مرے گھر سے دم رخصت نکلتا ہے اٹھا لے جائے جس کا جو مری بابت نکلتا ہے یہ ویرانی سی یوں ہی تو نہیں رہتی ہے آنکھوں میں مرے دل ہی سے کوئی جادۂ وحشت نکلتا ہے عجب حیرت سرا ہے یہ جہان تنگ داماں بھی یہاں تو دل بھی دھڑکن سے دم حسرت نکلتا ہے خوش ارزانی ہوئی ہے اس قدر بازار ہستی ...

    مزید پڑھیے

    پوشیدہ کسی ذات میں پہلے بھی کہیں تھا

    پوشیدہ کسی ذات میں پہلے بھی کہیں تھا میں ارض و سماوات میں پہلے بھی کہیں تھا اک لمحۂ غفلت نے مجھے زیر کیا ہے دشمن تو مری گھات میں پہلے بھی کہیں تھا بے وجہ نہ بدلے تھے مصور نے ارادے میں اس کے خیالات میں پہلے بھی کہیں تھا اس کے یہ خد و خال زمانوں میں بنے ہیں یہ شہر مضافات میں پہلے ...

    مزید پڑھیے

    ہوا میں آئے تو لو بھی نہ ساتھ لی ہم نے

    ہوا میں آئے تو لو بھی نہ ساتھ لی ہم نے پھر ایک عمر اندھیروں میں کاٹ دی ہم نے دیے میں زور بہت تھا مگر نہ جانے کیوں بس ایک حد سے نہ بڑھنے دی روشنی ہم نے اٹھا اٹھا کے ترے ناز اے غم دنیا خود آپ ہی تری عادت خراب کی ہم نے وفا میں جھوٹ ملایا دلوں میں کھوٹ رکھا کچھ اس طرح سے نبھائی ہے ...

    مزید پڑھیے

    ساری ترتیب زمانی مری دیکھی ہوئی ہے

    ساری ترتیب زمانی مری دیکھی ہوئی ہے اس کی تشکیل پرانی مری دیکھی ہوئی ہے ذرے ذرے کو بتاتا پھروں کیا بحر تھا میں ریگ صحرا نے روانی مری دیکھی ہوئی ہے یہ جو ہستی ہے کبھی خواب ہوا کرتی تھی خواب کی نقل مکانی مری دیکھی ہوئی ہے یوں ہی تو کنج قناعت میں نہیں آیا ہوں خسروی شاہجہانی مری ...

    مزید پڑھیے

    پھر اس سے قبل کہ بار دگر بنایا جائے

    پھر اس سے قبل کہ بار دگر بنایا جائے یہ آئینہ ہے اسے دیکھ کر بنایا جائے میں سوچتا ہوں ترے لا مکاں کے اس جانب مکان کیسا بنے گا اگر بنایا جائے ذرا ذرا سے کئی نقص ہیں ابھی مجھ میں نئے سرے سے مجھے گوندھ کر بنایا جائے زمین اتنی نہیں ہے کہ پاؤں رکھ پائیں دل خراب کی ضد ہے کہ گھر بنایا ...

    مزید پڑھیے

    اس رات کسی اور قلمرو میں کہیں تھا

    اس رات کسی اور قلمرو میں کہیں تھا تم آئے تو میں اپنے بدن ہی میں نہیں تھا کیا بزم تھی اس بزم میں کون آئے ہوئے تھے مہتاب بھی سورج بھی ستارہ بھی وہیں تھا کچھ نیند سے بوجھل تھیں ترے شہر کی آنکھیں کچھ میری کہانی میں بھی وہ ربط نہیں تھا کہتے ہیں کہ رک سی گئی رفتار زمانہ جب سیر سماوات ...

    مزید پڑھیے

    یہ خیال تھا کبھی خواب میں تجھے دیکھتے

    یہ خیال تھا کبھی خواب میں تجھے دیکھتے کبھی زندگی کی کتاب میں تجھے دیکھتے مرے ماہ تم تو حجاب ہی میں رہے مگر ہمیں تاب تھی تب و تاب میں تجھے دیکھتے کبھی کوئی بابت حسن ہم سے جو پوچھتا تو ہم اہل عشق جواب میں تجھے دیکھتے کسی اور دھج سے بناتے تیرا مجسمہ کبھی ہم جو عین شباب میں تجھے ...

    مزید پڑھیے

    عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے

    عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے کسی کا بھی نہ چراغوں کی سمت دھیان گیا شب نشاط وہ کب کب بجھے تھے کب روئے ہزار گریہ کے پہلو نکلنے والے ہیں اسے کہو کہ وہ یوں ہی نہ بے سبب روئے ہمارے زاد سفر میں بھی درد رکھا گیا سو ہم بھی ٹوٹ کے روئے سفر میں جب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2