طارق نعیم کی غزل

    ایسی تقسیم کی صورت نکل آئی گھر میں

    ایسی تقسیم کی صورت نکل آئی گھر میں دھوپ نے ہجر کی دیوار اٹھائی گھر میں سیل ایسا تھا کہ سب شہر بدن ڈوب گیا رات بارش نے عجب بزم سجائی گھر میں منتظر کتنے رہے بند دریچے سارے تیری آواز نہ پھر لوٹ کے آئی گھر میں در و دیوار مہکنے لگے اندازوں سے میں نے تصویر تری جوں ہی لگائی گھر ...

    مزید پڑھیے

    آج کس خواب کی تعبیر نظر آئی ہے

    آج کس خواب کی تعبیر نظر آئی ہے اک چھنکتی ہوئی زنجیر نظر آئی ہے میں نے جتنے بھی سوالوں میں اسے دیکھا ہے زندگی درد کی تصویر نظر آئی ہے خود بھی مٹ جاؤں یہ دنیا بھی مٹاتا جاؤں بس یہی صورت تعمیر نظر آئی ہے رات رو رو کے گزاری ہے چراغوں کی طرح تب کہیں حرف میں تاثیر نظر آئی ہے بارش ہجر ...

    مزید پڑھیے

    در و بست عناصر پارہ پارہ ہونے والا ہے

    در و بست عناصر پارہ پارہ ہونے والا ہے جو پہلے ہو چکا ہے پھر دوبارہ ہونے والا ہے گمان مہر میں یہ بات ہی شاید نہیں ہوگی ہویدا خاک سے بھی اک شرارہ ہونے والا ہے کنارہ کر نہ اے دنیا مری ہست زبونی سے کوئی دن میں مرا روشن ستارہ ہونے والا ہے پگھلنے جا رہا ہے پھر سے بحر منجمد کوئی سمندر ...

    مزید پڑھیے

    مری نگاہ کسی زاویے پہ ٹھہرے بھی

    مری نگاہ کسی زاویے پہ ٹھہرے بھی میں دیکھ سکتا ہوں حد نظر سے آگے بھی یہ راستہ مرے اپنے نشاں سے آیا ہے مرے ہی نقش کف پا تھے مجھ سے پہلے بھی میں اس کی آنکھ کے منظر میں آ تو سکتا ہوں وہ کم نگاہ مجھے حاشیے میں رکھے بھی میں اس کے حسن کی تھوڑی سی دھوپ لے آیا وہ آفتاب تو ڈھلنے لگا تھا ...

    مزید پڑھیے

    بہ نام عشق یہی ایک کام کرتے ہیں

    بہ نام عشق یہی ایک کام کرتے ہیں یہ زندگی کا سفر اس کے نام کرتے ہیں عجب نہیں در و دیوار جیسے ہو جائیں ہم ایسے لوگ جو خود سے کلام کرتے ہیں یہ ماہ رو بھی تو ہوتے ہیں آنسوؤں کی طرح کسی کی آنکھ میں کب یہ قیام کرتے ہیں غضب کی دھوپ ہے اب کے سفر میں ہم نفسو کسی کے سایۂ گیسو میں شام کرتے ...

    مزید پڑھیے

    میں آ رہا تھا ستاروں پہ پاؤں دھرتے ہوئے

    میں آ رہا تھا ستاروں پہ پاؤں دھرتے ہوئے بدن اتار دیا خاک سے گزرتے ہوئے جمال مجھ پہ یہ اک دن میں تو نہیں آیا ہزار آئینے ٹوٹے مرے سنورتے ہوئے عجب نظر سے چراغوں کی سمت دیکھا ہے ہوا نے زینۂ پندار سے اترتے ہوئے اک آدھ جام تو پی ہی لیا تھا ہم نے بھی خمار خانۂ دنیا کی سیر کرتے ...

    مزید پڑھیے

    جینا کیا ہے پچھلا قرض اتار رہا ہوں

    جینا کیا ہے پچھلا قرض اتار رہا ہوں میں تو اس کی باقی عمر گزار رہا ہوں آ جائے گا چاک پہ چلنا اور سنبھلنا ابھی تو گل سے اپنا آپ اتار رہا ہوں کوئی کب دیوار بنا ہے میرے سفر میں خود ہی اپنے رستے کی دیوار رہا ہوں کھل جا مجھ پر حرف طلسم کہ تیری طرح سے ایک زمانہ میں بھی پر اسرار رہا ...

    مزید پڑھیے

    مجھے زندگی سے خراج ہی نہیں مل رہا

    مجھے زندگی سے خراج ہی نہیں مل رہا ابھی اس سے میرا مزاج ہی نہیں مل رہا میں بنا رہا ہوں خیال و خواب کی بندشیں مری بندشوں کو رواج ہی نہیں مل رہا مجھے سلطنت تو ملی ہوئی ہے جمال کی کسی عشق کا کوئی تاج ہی نہیں مل رہا مجھے ملنے آئے گا شام کو مرا ہم سخن مرا آئینہ مجھے آج ہی نہیں مل ...

    مزید پڑھیے

    وہ خود گیا ہے اس کا اثر تو نہیں گیا

    وہ خود گیا ہے اس کا اثر تو نہیں گیا زاد سفر گیا ہے سفر تو نہیں گیا موسم ہی صرف بدلا ہے اس کے مزاج کا شاخ ثمر کٹی ہے ثمر تو نہیں گیا دنیا سمجھ رہی ہے اسے بے وفا مگر رستے سے اٹھ گیا ہے وہ گھر تو نہیں گیا رہ رہ کے پوچھتی ہے کف پا سے چاندنی اس راہ سے وہ رشک قمر تو نہیں گیا دشت جنوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو اس طرح کہاں چھوڑ کے جانا تھا ہمیں

    تجھ کو اس طرح کہاں چھوڑ کے جانا تھا ہمیں وہ تو اک عہد تھا اور عہد نبھانا تھا ہمیں تم تو اس پار کھڑے تھے تمہیں معلوم کہاں کیسے دریا کے بھنور کاٹ کے آنا تھا ہمیں ان کو لے آیا تھا منزل پہ زمانہ لیکن ہم چلے ہی تھے کہ در پیش زمانہ تھا ہمیں وہ جو اک بار اٹھا لائے تھے ہم عجلت میں پھر وہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2