وہ خود گیا ہے اس کا اثر تو نہیں گیا
وہ خود گیا ہے اس کا اثر تو نہیں گیا
زاد سفر گیا ہے سفر تو نہیں گیا
موسم ہی صرف بدلا ہے اس کے مزاج کا
شاخ ثمر کٹی ہے ثمر تو نہیں گیا
دنیا سمجھ رہی ہے اسے بے وفا مگر
رستے سے اٹھ گیا ہے وہ گھر تو نہیں گیا
رہ رہ کے پوچھتی ہے کف پا سے چاندنی
اس راہ سے وہ رشک قمر تو نہیں گیا
دشت جنوں پہ گریۂ باراں تھا رات بھر
دیوانہ تیرا جاں سے گزر تو نہیں گیا
کس بات سے خجل ہوں سر کوہ طور میں
تاب نظر میں ذوق نظر تو نہیں گیا
بکھرے پڑے ہیں فرش پہ وعدے نئے نئے
آئینہ گر سے آئنہ ڈر تو نہیں گیا
طارق نعیمؔ رہنے لگے ہو ملول سے
کوئی تمہارا خواب بکھر تو نہیں گیا