Tanveer Samani

تنویر سامانی

تنویر سامانی کی غزل

    سوچ کا زہر نہ اب شام و سحر دے کوئی

    سوچ کا زہر نہ اب شام و سحر دے کوئی عام ہے بے خبری ایسی خبر دے کوئی سیر آفاق ہو کیوں مشغلۂ فکر و نظر کاش میرے پر پرواز کتر دے کوئی دور تک بکھرا ہوا ریت کی صورت ہے وجود خود کو آواز ادھر دے کہ ادھر دے کوئی میرے الفاظ نہ کر پائے معانی کو اسیر کتنے دریاؤں کو اک کوزے میں بھر دے ...

    مزید پڑھیے

    احباب ہو گئے ہیں بہت مجھ سے بد گمان

    احباب ہو گئے ہیں بہت مجھ سے بد گمان قینچی کی طرح چلنے لگی ہے مری زبان اک بات میری ان کی توجہ نہ پا سکی کہتے تھے لوگ ہوتے ہیں دیوار کے بھی کان کھڑکی کو کھول کر تو کسی روز جھانک لو خالی ہے آج کل مرے احساس کا مکان تنہا اداس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا میں اک لفظ نے بکھیر دئے مشک و ...

    مزید پڑھیے

    دشت میں جو بھی ہے جیسا مرا دیکھا ہوا ہے

    دشت میں جو بھی ہے جیسا مرا دیکھا ہوا ہے راستہ اس کے سفر کا مرا دیکھا ہوا ہے کس لئے چیختا چنگھاڑتا رہتا ہے بہت موج در موج یہ دریا مرا دیکھا ہوا ہے وقت کے ساتھ جو تبدیل ہوا کرتا ہے آئنہ آئنہ چہرا مرا دیکھا ہوا ہے رنگ و روغن مری تصویر کو دینے والا آب شفاف ہے کتنا مرا دیکھا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    صورتوں کے شہر میں روزن ہی روزن دیکھ کر

    صورتوں کے شہر میں روزن ہی روزن دیکھ کر گھر میں آ بیٹھے کشادہ گھر کا آنگن دیکھ کر لوگ ڈالے ہیں بدن پر فکر کے رنگیں غلاف آئنوں میں شخصیت کا کھردرا پن دیکھ کر بد گماں احباب ہوتے ہیں تو ہونے دیجئے بات کیوں ہو فکر و فن کی رنگ و روغن دیکھ کر ہم چلے تھے خواہشوں کا تجزیہ کرنے مگر رک گئے ...

    مزید پڑھیے

    روز تبدیل ہوا ہے مرے دل کا موسم (ردیف .. ے)

    روز تبدیل ہوا ہے مرے دل کا موسم روز کمرے میں مرے سرد ہوا آئی ہے فکر کی آنچ میں پگھلے تو یہ معلوم ہوا کتنے پردوں میں چھپی ذات کی سچائی ہے روز آنکھوں میں اتر جاتا ہے خنجر کوئی ان دنوں اہل نظر کو غم بینائی ہے میرے چہرے سے جو پڑھ سکتے ہو پڑھ لو یارو دل کی ہر بات مرے لب پہ کہاں آئی ...

    مزید پڑھیے

    پھینکیں بھی یہ لباس بدن کا اتار کے

    پھینکیں بھی یہ لباس بدن کا اتار کے کب تک رہیں گرفت میں لیل و نہار کے تسخیر کائنات و حوادث کے باوجود حد پا سکے نہ جبر و غم و اختیار کے بکھرا ہمیشہ ریگ کی صورت ہواؤں میں ٹھہرا کبھی نہ مثل کسی کوہسار کے تنہا کھڑا ہوا ہوں میں دشت خیال میں خاموش ہو چکا بھی سمندر پکار کے تنویرؔ آگہی ...

    مزید پڑھیے

    خود سے بھی اک بات چھپایا کرتا ہوں

    خود سے بھی اک بات چھپایا کرتا ہوں اپنے اندر غیر کو دیکھا کرتا ہوں اپنی صورت بھی کب اپنی لگتی ہے آئینوں میں خود کو دیکھا کرتا ہوں ارمانوں کے روپ نگر میں رہ کر بھی خود کو تنہا تنہا پایا کرتا ہوں گلشن گلشن صحرا صحرا برسوں سے آوارہ آوارہ گھوما کرتا ہوں فرضی قصوں جھوٹی باتوں سے ...

    مزید پڑھیے