شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہے
شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہے وہ چاہتے ہیں آگ نہ بھڑکے دھواں رہے لیل و نہار پہلے جو تھے اب کہاں رہے ہاں یاد ہے کہ تم بھی کبھی مہرباں رہے قربت میں آ پڑے تھے قیامت کے فاصلے تنہا تھے ہم تو قول و قسم درمیاں رہے ہر گام پر ہیں دار و رسن کی سہولتیں اب جسم و جاں لٹاؤ کہ نام و نشاں ...