شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہے
شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہے
وہ چاہتے ہیں آگ نہ بھڑکے دھواں رہے
لیل و نہار پہلے جو تھے اب کہاں رہے
ہاں یاد ہے کہ تم بھی کبھی مہرباں رہے
قربت میں آ پڑے تھے قیامت کے فاصلے
تنہا تھے ہم تو قول و قسم درمیاں رہے
ہر گام پر ہیں دار و رسن کی سہولتیں
اب جسم و جاں لٹاؤ کہ نام و نشاں رہے
یوں مسکرا کے ترک تعلق کی گفتگو
ایسا ستم کہ جس پہ کرم کا گماں رہے
راہوں کے پیچ و خم میں مسافر بکھر گئے
اب کارواں قیام کرے یا رواں رہے
خوشبوئے پیرہن میں بسا ہے رواں رواں
وہ ہم سے لاکھ دور رہے جزو جاں رہے