Tahir Azeem

طاہر عظیم

طاہر عظیم کی غزل

    اک انوکھی رسم کو زندہ رکھا ہے

    اک انوکھی رسم کو زندہ رکھا ہے خون ہی نے خون کو پسپا رکھا ہے اب جنون خود نمائی میں تو ہم نے وحشتوں کا اک دریچہ وا رکھا ہے شہر کیسے اب حقیقت آشنا ہو آگہی پر ذات کا پہرہ رکھا ہے تیرگی کی کیا عجب ترکیب ہے یہ اب ہوا کے دوش پر دیوا رکھا ہے تم چراغوں کو بجھانے پر تلے ہو ہم نے سورج کو ...

    مزید پڑھیے

    ہر درد کی دوا بھی ضروری نہیں کہ ہو

    ہر درد کی دوا بھی ضروری نہیں کہ ہو میرے لئے ذرا بھی ضروری نہیں کہ ہو رہتا ہے ذہن و دل میں جو احساس کی طرح اس کا کوئی پتا بھی ضروری نہیں کہ ہو انسان سے ملو بھی تو انسان جان کر ہر شخص دیوتا بھی ضروری نہیں کہ ہو کس نے تمہیں زبان عطا کی کہ آج تم کہتے ہو جو خدا بھی ضروری نہیں کہ ...

    مزید پڑھیے

    اک وحشت سی در آئی ہے آنکھوں میں

    اک وحشت سی در آئی ہے آنکھوں میں اپنی صورت دھندلائی ہے آنکھوں میں آج چمن کا حال نہ پوچھو ہم نفسو آج خزاں کی رت آئی ہے آنکھوں میں برسوں پہلے جس دریا میں اترا تھا اب تک اس کی گہرائی ہے آنکھوں میں ان باتوں پر مت جانا جو عام ہوئیں دیکھو کتنی سچائی ہے آنکھوں میں ان میں اب بھی حرف ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو بھی حق ہے زندگانی کا

    مجھ کو بھی حق ہے زندگانی کا میں بھی کردار ہوں کہانی کا جو مجھے آج پھر نظر آیا خواب ہے میری نوجوانی کا ہم کو درپیش ہے زمانے سے مسئلہ بخت کی گرانی کا کیوں نکلتا نظر نہیں آتا کچھ نتیجہ بھی خوش گمانی کا کل جو سیلاب آ گیا تو عظیمؔ ہم نے جانا مزاج پانی کا

    مزید پڑھیے

    میں اس کی محبت سے اک دن بھی مکر جاتا

    میں اس کی محبت سے اک دن بھی مکر جاتا کچھ اور نہیں ہوتا اس دل سے اتر جاتا جس شام گرفتاری قسمت میں مری آئی اس شام کی لذت سے میں اور بکھر جاتا خوشبو کے تعاقب نے زنجیر کیا مجھ کو ورنہ تو یہاں سے میں چپ چاپ گزر جاتا آواز سماعت تک پہنچی ہی نہیں شاید وہ ورنہ تسلی کو کچھ دیر ٹھہر ...

    مزید پڑھیے

    بڑھ رہا ہوں خیال سے آگے

    بڑھ رہا ہوں خیال سے آگے کچھ نہیں ماہ و سال سے آگے بس حقیقت ہے جو نظر آیا ہے فسانہ جمال سے آگے میں ترے ہجر میں جو زندہ ہوں سوچتا ہوں وصال سے آگے اس قدر با کمال ہیں یہ لوگ کچھ کریں گے کمال سے آگے شوق صدمے سے ہو گیا دو چار بڑھ نہ پایا دھمال سے آگے یہ جو ماضی کی بات کرتے ہیں سوچتے ...

    مزید پڑھیے

    خواہشوں کی بادشاہی کچھ نہیں

    خواہشوں کی بادشاہی کچھ نہیں دل میں شوق کج کلاہی کچھ نہیں کیوں عدالت کو شواہد چاہئیں کیا یہ زخموں کی گواہی کچھ نہیں صبح لکھی ہے اگر تقدیر میں رات کی پھر یہ سیاہی کچھ نہیں سوچ اپنی ذات تک محدود ہے ذہن کی کیا یہ تباہی کچھ نہیں ظرف شامل ہے ہمارے خون میں یہ تمہاری کم نگاہی کچھ ...

    مزید پڑھیے

    جیسے سوال میں ہو کوئی جواب سا

    جیسے سوال میں ہو کوئی جواب سا رکھ کر چلا گیا وہ آنکھوں میں خواب سا ان سا حسین کوئی اس شہر میں نہیں آنکھیں شراب جیسی چہرہ کتاب سا کانٹا چبھو گیا وہ دل خون ہو گیا اک چہرہ لگ رہا تھا ہم کو گلاب سا آوارہ ہو گیا ہے اے دوست عشق بھی پھرتا ہے شہر جاں میں اب بے حجاب سا پیتا رہا ہوں آنسو ...

    مزید پڑھیے

    محبت سے گزر جانا ہمارا

    محبت سے گزر جانا ہمارا نہ تھا آسان مر جانا ہمارا وہاں جب منتظر کوئی نہیں ہے نہیں بنتا ادھر جانا ہمارا ذرا تم وقت کی رفتار دیکھو کہاں ممکن ٹھہر جانا ہمارا تمہارے راستے میں آ گئے ہیں بہت مشکل ہے گھر جانا ہمارا کہانی کا تو رخ ہی موڑ دے گا کسی کردار پر جانا ہمارا ہماری جان خطرے ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو شیشہ ہے دل نما مجھ میں

    یہ جو شیشہ ہے دل نما مجھ میں ٹوٹ جاتا ہے بارہا مجھ میں میں ترے ہجر کی گرفت میں ہوں ایک صحرا ہے مبتلا مجھ میں من مہکتا ہے کس کی خوشبو سے کون رہتا ہے پھول سا مجھ میں کتنے لمحات کا تھا اک لمحہ زندگی بھر رکا رہا مجھ میں اس کی آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے اور سیلاب آ گیا مجھ میں جب بھی اپنی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2