تفضیل احمد کی غزل

    محور پہ بھی گردش مری محور سے الگ ہو

    محور پہ بھی گردش مری محور سے الگ ہو اس بحر میں تیروں جو سمندر سے الگ ہو اپنا بھی فلک ہو مگر افلاک سے ہٹ کے ہو بوجھ بھی سر کا تو مرے سر سے الگ ہو میں ایسا ستارہ ہوں تری کاہکشاں میں موجود ہو منظر میں نہ منظر سے الگ ہو دیوار نمائش کی خراشوں کا ہوں میں رنگ ہر لمحہ وہ دھاگہ ہے جو چادر ...

    مزید پڑھیے

    خاموش بھی رہ جائے اور اظہار بھی کر دے

    خاموش بھی رہ جائے اور اظہار بھی کر دے تصویر وہ حاذق ہے جو بیمار بھی کر دے ہم سے تو نہ ہوگی کبھی اس طرح محبت جو حد سے گزرنے پہ گنہ گار بھی کر دے اس بار بھی تاویل شب و روز نئی ہے ممکن ہے وہ قائل مجھے اس بار بھی کر دے افلاک تلاشی میں ہوں اس برج کی خاطر جو میرے خزانے کو فلک پار بھی کر ...

    مزید پڑھیے

    ستم ظریفی کی صورت نکل ہی آتی ہے

    ستم ظریفی کی صورت نکل ہی آتی ہے رقیب کی بھی ضرورت نکل ہی آتی ہے قدم رکھیں تو کہاں آب و ریگ و خاک پہ ہم سبھی جگہ کوئی تربت نکل ہی آتی ہے حساب قرب و کشش کر کے کیوں ہوں شرمندہ مرے لہو کی تو قیمت نکل ہی آتی ہے ہے پل صراط کی ہی بو نسائی راہ جہاں یہاں بھی حشر کی حالت نکل ہی آتی ہے بڑے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2