تفضیل احمد کی غزل

    اول وہی سیراب تھا ثانی بھی وہی تھا

    اول وہی سیراب تھا ثانی بھی وہی تھا پتھر سے گزرتا ہوا پانی بھی وہی تھا نوخیز دعاؤں کا شجر کار بھی نکلا بوسیدہ تمناؤں کا بانی بھی وہی تھا آنکھوں پہ جو رکھتا رہا رومال تسلی نم دیدہ گر نقل مکانی بھی وہی تھا آیات ارادہ پہ وہی نور کی انگلی اوراق سیہ تر کا گیانی بھی وہی تھا کوکب سا ...

    مزید پڑھیے

    شہر کو چوٹ پہ رکھتی ہے گجر میں کوئی چیز

    شہر کو چوٹ پہ رکھتی ہے گجر میں کوئی چیز بلیاں ڈھونڈھتی رہتی ہیں کھنڈر میں کوئی چیز چاک ہیں زخم کے پانی میں ہوا میں ناسور مٹھیاں تول کے نکلی ہے سفر میں کوئی چیز بارہا آنکھیں گھنی کرتا ہوں اس پہ پھر بھی چھوٹ رہتی ہے نگہ سے گل تر میں کوئی چیز کبھی بیٹھک سے رسوئی کبھی دالان سے ...

    مزید پڑھیے

    گھنے ارمان گاڑھی آرزو کرنے سے ملتا ہے

    گھنے ارمان گاڑھی آرزو کرنے سے ملتا ہے خدا جاڑے کی راتوں میں وضو کرنے سے ملتا ہے ہوا کی دھن درختوں کا سخن نغمے ہیں لیکن فن دلوں کے چاک میں آنکھیں رفو کرنے سے ملتا ہے خدا ان کو شعور تشنگی دیتا تو اچھا تھا انہیں پیاسوں میں کیا شغل سبو کرنے سے ملتا ہے یقیں دنیا نہیں کرتی مگر ہے ...

    مزید پڑھیے

    تنہا کر کے مجھ کو صلیب سوال پہ چھوڑ دیا

    تنہا کر کے مجھ کو صلیب سوال پہ چھوڑ دیا میں نے بھی دنیا کو اس کے حال پہ چھوڑ دیا اک چنگاری اک جگنو اک آنسو اور اک پھول جاتے ہوئے کیا کیا اس نے رومال پہ چھوڑ دیا پارہ پارہ خوشبو چکراتی ہے کمرے میں آگ جلا کے شیرہ اس نے ابال پہ چھوڑ دیا پہلے اس نے برسائے آکاش پہ سارے تیر پھر دھیرے ...

    مزید پڑھیے

    لب منطق رہے کوئی نہ چشم لن ترانی ہو

    لب منطق رہے کوئی نہ چشم لن ترانی ہو زمیں پھر سے مرتب ہو فلک پر نظر ثانی ہو ابھی تک ہم نے جو مانگا ترے شایاں نہیں مانگا سکھا دے ہم کو کن کہنا جو تیری مہربانی ہو خس بے ماجرا ہیں خار بے بازار ہیں تو کیا نمو شہکار ہم بھی ہیں ہماری بھی کسانی ہو ملیں گے دھوپ کی ماری چٹانوں میں بھی خواب ...

    مزید پڑھیے

    لہروں میں بھنور نکلیں گے محور نہ ملے گا

    لہروں میں بھنور نکلیں گے محور نہ ملے گا ہر موج میں پانی بھی برابر نہ ملے گا گر جاتی ہے روز ایک پرت راکھ بدن سے جلنے کا سماں پھر بھی کہیں پر نہ ملے گا چشمک بھی جو رکھنی ہے تو چوتھائی زمیں سے شوریدہ زباں کیسے سمندر نہ ملے گا ہر سمت دماغوں کے ترنگوں کا ہے شب خوں تکنیک کی اس جنگ میں ...

    مزید پڑھیے

    وہی بے لباس کیاریاں کہیں بیل بوٹوں کے بل نہیں

    وہی بے لباس کیاریاں کہیں بیل بوٹوں کے بل نہیں تجھے کیا بلاؤں میں باغ میں کسی پیڑ پر کوئی پھل نہیں ہوئے خشک بحر تو کیا ہوا مری ناؤ زور ہوا پہ ہے مرے بادباں ہیں بھرے ہوئے سو بلا سے ریت میں جل نہیں ہے دباؤ عشرہ حواس پر ہیں تمام عضو کھنچے ربر ہوں اتھل پتھل سے گھرا مگر مجھے اذن رد عمل ...

    مزید پڑھیے

    ملا کسی سے نہ اچھا لگا سخن اس بار

    ملا کسی سے نہ اچھا لگا سخن اس بار بنا ہے لاشوں کے اعضا سے یہ بدن اس بار سنا ہے تینوں رتیں ساتھ ساتھ آئیں گی قمیص ڈال کے نکلوں کھلے بٹن اس بار ہوا کی موت سے ڈولے نہ قتل آب سے ہم تمام چیزوں پہ بھاری پڑی تھکن اس بار بہت سے شہر بہت سی فضا بہت سے لوگ مگر ہے سب میں کوئی بو کوئی سڑن اس ...

    مزید پڑھیے

    پہاڑوں کو بچھا دیتے کہیں کھائی نہیں ملتی

    پہاڑوں کو بچھا دیتے کہیں کھائی نہیں ملتی مگر اونچے قدم رکھنے کو اونچائی نہیں ملتی اکیلا چھوڑتا کب ہے کسی کو لا شعور تن کسی تنہائی میں بھرپور تنہائی نہیں ملتی غنیمت ہے کہ ہم نے چشم حسرت پال رکھی ہے زمانے کو یہ حسرت بھی مرے بھائی نہیں ملتی فسون ریگ میں موجیں بھی ہیں دلدل بھی ...

    مزید پڑھیے

    اک پریشانی الگ تھی اور پشیمانی الگ

    اک پریشانی الگ تھی اور پشیمانی الگ عمر بھر کرتے رہے ہم دودھ اور پانی الگ ریت ہی دونوں جگہ تھی زیر مہر و زیر آب مصرع اولیٰ سے کب تھا مصرع ثانی الگ دشت میں پہلے ہی روشن تھی ببولوں پر بہار دے رہے ہیں شہر میں کانٹوں کو سب پانی الگ کچھ کمک چاہی تو زنبیل ہوا خالی ملی گھاٹیوں میں کھو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2