Tabish Siddiqui

تابش صدیقی

تابش صدیقی کی غزل

    ہر ادا تند اور نبات اس کی

    ہر ادا تند اور نبات اس کی دل میں کھبتی ہے بات بات اس کی جان دی جس نے تیرے قدموں میں ہو گئی موت بھی حیات اس کی دل مرحوم کا تو ذکر ہی کیا تم تھے لے دے کے کائنات اس کی مر گیا دل وفا کے دھوکے میں نہ سنی تم نے واردات اس کی نہ گیا شیخ کا جنون‌ بہشت نہ ہوئی مر کے بھی نجات اس کی ذرہ جو ...

    مزید پڑھیے

    اک عمر ہوئی اور میں اپنے سے جدا ہوں

    اک عمر ہوئی اور میں اپنے سے جدا ہوں خوشبو کی طرح خود کو سدا ڈھونڈ رہا ہوں ہر لمحہ تری یاد کے سائے میں کٹا ہے تھک تھک کے ہر اک گام پہ جب بیٹھ گیا ہوں تو لاکھ جدا مجھ سے رہے پاس ہے میرے تو گنبد ہستی ہے تو میں اس کی صدا ہوں ہر سانس تری باد سحر کا کوئی جھونکا میں پھول نہیں اور ترے رستے ...

    مزید پڑھیے