Syed Fazlul Mateen

سید فضل المتین

  • 1939

سید فضل المتین کی غزل

    جو بات کہنی ہے مجھ کو وہ کہنے والا ہوں

    جو بات کہنی ہے مجھ کو وہ کہنے والا ہوں کسی کے خوف سے کب چپ میں رہنے والا ہوں کہاں کہاں مجھے روکو گے بند باندھوگے میں چڑھتا دریا ہوں ہر سمت بہنے والا ہوں تمہارے چاہنے والوں سے میں بھی واقف ہوں تمہارا درد میں تنہا ہی سہنے والا ہوں مری بھی بات سنو میری شکل پہچانو تمہارے شہر کا اک ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے خواب کچھ انعکاس لگتا ہے

    ہمارے خواب کچھ انعکاس لگتا ہے یہ آدمی تو ہمیں روشناس لگتا ہے گزارشات بھی باعث تھیں برہمی کا کبھی اب اس کا حکم بھی اک التماس لگتا ہے جو اپنے نام سے تحریر اس نے بھیجی ہے ہمارے خط کا کوئی اقتباس لگتا ہے بلا سبب یہ کرے بد گمان کیوں آخر درست! ناصح! قیافہ شناس لگتا ہے وہ ہم سے ترک ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو تنہا جو پا رہی ہے رات

    مجھ کو تنہا جو پا رہی ہے رات خوف سے سہمی جا رہی ہے رات کس کی یادوں کی چاندنی چٹکی کس لیے جگمگا رہی ہے رات کون یاد آ گیا ہے پچھلے پہر جاتے جاتے پھر آ رہی ہے رات ہر طرف ہے سکوت غم طاری داستاں کیا سنا رہی ہے رات غمزدہ دل ہے اور بھی غمگیں گیت کیا گنگنا رہی ہے رات دل کے صحرا میں ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکھڑاتا ایک پتہ جب گرا اک پیڑ سے

    کھڑکھڑاتا ایک پتہ جب گرا اک پیڑ سے سوتے گہری نیند پنچھی پھڑپھڑا کر اڑ چلے جل بجھی یادوں نے جب آنکھوں میں اک انگڑائی لی ادھ جلے کاغذ پہ پیلے حرف روشن ہو گئے بین جب بجنے لگی سویا مدن بھی جاگ اٹھا زہر لہرانے لگا خوابوں میں ہر اک سانپ کے لمحہ لمحہ ٹوٹ کر بہنے لگی مدت کی نیند رفتہ ...

    مزید پڑھیے

    جو ہو سکے تو آپ بھی کچھ کر دکھائیے

    جو ہو سکے تو آپ بھی کچھ کر دکھائیے عمر عزیز اپنی نہ یوں ہی گنوائیے دن کو ٹھٹھرتی دھوپ میں ٹانگیں پساریے راتوں کو جاگ جاگ کے محفل سجائیے چائے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہ یاروں کو عہد رفتہ کے قصے سنائیے نام و نمود کی ہو اگر آپ کو ہوس جیسے بھی ہو کسی طرح بس چھپتے جائیے وہ اجنبی بھی ...

    مزید پڑھیے

    چھٹی کا دن ہے چاہئے جیسے گزاریئے

    چھٹی کا دن ہے چاہئے جیسے گزاریئے مرغا لڑائیے کہ کبوتر اڑائیے سڑکوں پہ گھومنے سے طبیعت ہو جب اچاٹ ہوٹل میں بیٹھ جائیے قصے سنائیے کھا کھا کے پان پھونکئے سگریٹ نو بہ نو پیشہ وران شہر سے پینگیں بڑھائیے افسر کو دیجے گھر پہ بلا دعوت نگاہ دفتر میں جا کے رعب پھر اپنا جمائیے رشوت کے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کو چمک چہرے کو اک آب تو دیجے

    آنکھوں کو چمک چہرے کو اک آب تو دیجے جھوٹا ہی سہی آپ کوئی خواب تو دیجے ہم سنگ گراں ہیں خس و خاشاک ہیں کیا ہیں معلوم ہو پہلے کوئی سیلاب تو دیجے ہم جام بکف بیٹھے رہیں اور کہاں تک تقدیر میں امرت نہیں زہراب تو دیجے ہم کو بھی ہے یہ شوق کہ ڈوبیں کبھی ابھریں ہو گردش ایام کا گرداب تو ...

    مزید پڑھیے

    آبادیوں میں کھو گیا صحراؤں کا جنون

    آبادیوں میں کھو گیا صحراؤں کا جنون شہروں کا جمگھٹوں میں گیا گاؤں کا سکون حالات کے اسیر ہوئے مسخ ہو گئے چہرے پہ جن کے دوڑتا تھا نازکی کا خون تہذیب نو کی روشنی میں جل بجھے تمام ماضی کی یادگار مرے علم اور فنون بے چین زندگی کے تقاضے عجیب ہیں پھر اس جگہ چلیں جہاں کھو آئے ہیں ...

    مزید پڑھیے