Syed Anwar Ahmad

سید انوار احمد

سید انوار احمد کی غزل

    جیسے کہ اک فریم ہو تصویر کے بغیر

    جیسے کہ اک فریم ہو تصویر کے بغیر ہم خواب دیکھتے رہے تعبیر کے بغیر لازم نہیں کہ پیار میں رشتہ ہو جسم کا خوشبو ہے ساتھ پھول کے زنجیر کے بغیر کوشش تو کر کے دیکھنا تقدیر کچھ بھی ہو مت ہار ماننا کبھی تدبیر کے بغیر ملکوں کی فکر چھوڑ کے قبضہ دلوں پہ کر مل جائے گا جہان یہ تسخیر کے ...

    مزید پڑھیے

    جو مال اس نے سمیٹا تھا وہ بھی سارا گیا

    جو مال اس نے سمیٹا تھا وہ بھی سارا گیا وہ خواہشوں کے تصادم میں آج مارا گیا خمار عشق کی غارت گری ہے دونوں طرف ہماری عمر گئی اور سکوں تمہارا گیا بپھرتی موج کے آگے یہ کس کو یاد رہا کہاں پہ ناؤ گئی اور کہاں کنارا گیا بس ایک جان بچی ہے چلو نثار کریں سنا ہے نام ہمارا ہی پھر پکارا ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسے خوف ہمیں آج پھر ستانے لگے

    یہ کیسے خوف ہمیں آج پھر ستانے لگے ہمارے پاس رہو تم کہ دل ٹھکانے لگے غبار شہر سے باہر تری رفاقت میں سکوت شام کے لمحے بڑے سہانے لگے کبھی جو لوٹ کے آئے کسی مسافت سے تو اپنے شہر کے منظر وہی پرانے لگے سزا کے خوف سے کیوں اس قدر لرزتا ہے کر ایسا جرم کہ رحمت بھی مسکرانے لگے یہ کائنات ...

    مزید پڑھیے

    کل پہلی بار اس سے عنایت سی ہو گئی

    کل پہلی بار اس سے عنایت سی ہو گئی کچھ اس طرح کہ مجھ کو شکایت سی ہو گئی آیا ہے اب خیال تلافی تجھے کہ جب اس دل کو تیرے ہجر کی عادت سی ہو گئی پہلے پہل تو عام سی لڑکی لگی مجھے پھر یوں ہوا کہ اس سے محبت سی ہو گئی اتنے طویل عرصے سے ہم ساتھ ساتھ ہیں اب ایک دوسرے کی ضرورت سی ہو گئی اک بار ...

    مزید پڑھیے

    مٹی ترے مہکنے سے مجھ کو گمان ہے

    مٹی ترے مہکنے سے مجھ کو گمان ہے بارش کی بوند بوند میں اک داستان ہے یہ سوچتے ہو کیوں کہ خدا بس تمہیں ملا دیکھو جہاں زمیں ہے وہاں آسمان ہے لگتا ہے گھر وہی جہاں آپس میں پیار ہو ورنہ تو لوگ رہتے ہیں اور اک مکان ہے آنکھوں کی بات چیت میں پڑنا یہ سوچ کر نظروں کے لین دین میں دل کا زیان ...

    مزید پڑھیے

    کیوں مل رہی ہے ان کو سزا چیختی رہی

    کیوں مل رہی ہے ان کو سزا چیختی رہی سنسان وادیوں میں ہوا چیختی رہی ہونٹوں کی لرزشوں میں رہے حرف منجمد سینے میں دفن ہو کے دعا چیختی رہی صدمے کی شدتوں سے ہر اک آنکھ خشک تھی یہ دیکھ کر فلک پہ گھٹا چیختی رہی اک مصلحت کے سامنے مجبور تو ہوئے لیکن قدم قدم پہ انا چیختی رہی رخصت ہوئے تو ...

    مزید پڑھیے

    راحت کے واسطے نہ رفاقت کے واسطے

    راحت کے واسطے نہ رفاقت کے واسطے اب کوئی مجھ کو چاہے تو چاہت کے واسطے یہ اختلاف فکر بہت کام آئے گا اس کو بچا کے رکھ کسی ساعت کے واسطے دونوں کو اس جہان میں سچ کی تلاش تھی اتنا بہت تھا ہم میں رفاقت کے واسطے میں خواہش قیام سے آگے نکل گیا اب مجھ کو مت پکار اقامت کے واسطے منزل مری سفر ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو ہی سوچتا رہوں فرصت نہیں رہی

    تجھ کو ہی سوچتا رہوں فرصت نہیں رہی اور پھر وہ پہلے والی طبیعت نہیں رہی تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہا تو پتہ چلا اب اس قدر بھی تیری ضرورت نہیں رہی میں سرد ہو گیا ہوں کہ اب تیرے لمس میں گزری رتوں کی آتشیں حدت نہیں رہی آخر کو تیرے غم بھی مجھے راس آ گئے شام فراق میں بھی وہ شدت نہیں ...

    مزید پڑھیے