سلیمان خمار کی غزل

    دشت میں گھاس کا منظر بھی مجھے چاہیے ہے

    دشت میں گھاس کا منظر بھی مجھے چاہیے ہے سر چھپانے کے لئے گھر بھی مجھے چاہیے ہے تھوڑی تدبیر کی سوغات ہے مطلوب مجھے اور تھوڑا سا مقدر بھی مجھے چاہیے ہے تیرنے کے لئے دریا بھی ہے کافی لیکن شوق کہتا ہے سمندر بھی مجھے چاہیے ہے صرف دیواروں سے ہوتی نہیں گھر کی تکمیل چھت بھی درکار ہے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دیا کسی چوکھٹ پہ اب نہ جلنے کا

    کوئی دیا کسی چوکھٹ پہ اب نہ جلنے کا سیاہ رات کا منظر نہیں بدلنے کا وہ رت بدل گئی سب سے قریب رہنے کی زمانہ ختم ہوا سب کے ساتھ چلنے کا لو اپنے جرم کا اقرار کر رہے ہیں ہم ہنر نہ آیا ہمیں بات کو بدلنے کا کسے ہے آرزو تنہائیوں میں جلنے کی کسے ہے شوق کسی کے لیے پگھلنے کا یہ چاہتوں کا ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے بچھڑوں تو یہ خدشہ ہے اکیلا ہو جاؤں

    تجھ سے بچھڑوں تو یہ خدشہ ہے اکیلا ہو جاؤں گھور تنہائی کے جنگل کا میں حصہ ہو جاؤں اک ترے دم سے ہی شاداب ہے یہ میرا وجود تو نظر پھیر لے مجھ سے تو میں صحرا ہو جاؤں دل کی دیواروں پہ مرقوم رہے نام مرا قبل اس کے کہ میں بھولا ہوا قصہ ہو جاؤں تو اگر دل میں بسا لے تو بنوں میں شاعر تو جو ...

    مزید پڑھیے

    حیا بھی آنکھ میں وارفتگی بھی

    حیا بھی آنکھ میں وارفتگی بھی بدن میں پیاس لب پر خامشی بھی دریچے بند ہوں اچھا ہے لیکن ضروری ہے ہوا بھی روشنی بھی میں واقف ہوں تری چپ گویوں سے سمجھ لیتا ہوں تیری ان کہی بھی پہن لیں لمس کی آنچیں کسی دن پگھل جائے یہ حد آخری بھی کیا کرتی ہے سجدے مجھ کو ٹھوکر مقدس ہے مری آوارگی ...

    مزید پڑھیے

    بیمار سا ہے جسم سحر کانپ رہا ہے

    بیمار سا ہے جسم سحر کانپ رہا ہے یہ کس نے اجالوں کا لہو چوس لیا ہے اے دوست تری یاد کا مہتاب درخشاں اب یاس کی گھنگھور گھٹاؤں میں چھپا ہے اس دور میں سنسان سے ہیں بام و در زیست نغموں نے خموشی کا کفن اوڑھ لیا ہے سناٹوں کے کف پر مری تصویر بنی ہے تنہائی کے آنچل پہ مرا نام لکھا ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    اس گھنی شب کا سویرا نہیں آنے والا

    اس گھنی شب کا سویرا نہیں آنے والا اب کہیں سے بھی اجالا نہیں آنے والا جبرئیل اب نہیں آئیں گے زمیں پر ہرگز پھر سے آیات کا تحفہ نہیں آنے والا ہو گئے دفن شب و روز پرانے کب کے لوٹ کر پھر وہ زمانہ نہیں آنے والا پیڑ تو سارے ہی بے برگ ہوئے جاتے ہیں دھوپ تو آئے گی سایہ نہیں آنے والا یہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ سر سے پاؤں تلک چاہتوں میں ڈوبا تھا

    وہ سر سے پاؤں تلک چاہتوں میں ڈوبا تھا وہ شخص کیا تھا محبت کا استعارہ تھا نہ چاند تھا نہ ستارہ نہ پھول تھا نہ دھنک وہ پھر بھی حسن کی دنیا میں اک اضافہ تھا مجھے پتہ ہی نہیں کب وہ لفظ کن بن کر مرے وجود کے دیوار و در میں گونجا تھا عجیب بات ہے دیکھا نہ تھا کسی نے اسے عجیب بات ہے گھر ...

    مزید پڑھیے

    کیوں میرے دکھ چنتے ہو

    کیوں میرے دکھ چنتے ہو تم میرے کیا لگتے ہو مجھ کو جوڑنے بیٹھے ہو اندر سے خود ٹوٹے ہو میرے دکھ کی تہیں ہزار کیوں خود کو الجھاتے ہو مجھ کو سب کچھ مان لیا تم بھی کتنے بھولے ہو پیار محبت عشق وفا کیسی باتیں کرتے ہو دھیان کے کورے کاغذ پر کیا کیا لکھتے رہتے ہو دنیا سب کچھ پڑھتی ...

    مزید پڑھیے

    دشت میں یہ جاں فزا منظر کہاں سے آ گئے

    دشت میں یہ جاں فزا منظر کہاں سے آ گئے اس بیاباں میں چمکتے گھر کہاں سے آ گئے قریۂ جاں میں جھلستی دھوپ تھی چاروں طرف سایا لے کر ابر کے لشکر کہاں سے آ گئے وادیٔ تخئیل تو بے رنگ تھی اک عمر سے گمشدہ یادوں کے یہ پیکر کہاں سے آ گئے ڈھہ چکی تھیں جب تمنائیں سبھی کھنڈرات میں شہر دل میں پھر ...

    مزید پڑھیے

    اس ایک سوچ میں گم ہیں خیال جتنے ہیں

    اس ایک سوچ میں گم ہیں خیال جتنے ہیں جواب اتنے نہیں ہیں سوال جتنے ہیں جو سازشوں کو کچلنے کی بات کرتا ہے بنے ہوئے ہیں اسی کے یہ جال جتنے ہیں اسی کی دین ہیں یہ سب اسی کے تحفے ہیں ہماری فکر کے شیشے میں بال جتنے ہیں ہمیں نے چبھتے مسائل کی میزبانی کی ہمیں نے پال رکھے ہیں وبال جتنے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3