سلیمان خمار کے تمام مواد

21 غزل (Ghazal)

    دشت میں گھاس کا منظر بھی مجھے چاہیے ہے

    دشت میں گھاس کا منظر بھی مجھے چاہیے ہے سر چھپانے کے لئے گھر بھی مجھے چاہیے ہے تھوڑی تدبیر کی سوغات ہے مطلوب مجھے اور تھوڑا سا مقدر بھی مجھے چاہیے ہے تیرنے کے لئے دریا بھی ہے کافی لیکن شوق کہتا ہے سمندر بھی مجھے چاہیے ہے صرف دیواروں سے ہوتی نہیں گھر کی تکمیل چھت بھی درکار ہے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دیا کسی چوکھٹ پہ اب نہ جلنے کا

    کوئی دیا کسی چوکھٹ پہ اب نہ جلنے کا سیاہ رات کا منظر نہیں بدلنے کا وہ رت بدل گئی سب سے قریب رہنے کی زمانہ ختم ہوا سب کے ساتھ چلنے کا لو اپنے جرم کا اقرار کر رہے ہیں ہم ہنر نہ آیا ہمیں بات کو بدلنے کا کسے ہے آرزو تنہائیوں میں جلنے کی کسے ہے شوق کسی کے لیے پگھلنے کا یہ چاہتوں کا ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے بچھڑوں تو یہ خدشہ ہے اکیلا ہو جاؤں

    تجھ سے بچھڑوں تو یہ خدشہ ہے اکیلا ہو جاؤں گھور تنہائی کے جنگل کا میں حصہ ہو جاؤں اک ترے دم سے ہی شاداب ہے یہ میرا وجود تو نظر پھیر لے مجھ سے تو میں صحرا ہو جاؤں دل کی دیواروں پہ مرقوم رہے نام مرا قبل اس کے کہ میں بھولا ہوا قصہ ہو جاؤں تو اگر دل میں بسا لے تو بنوں میں شاعر تو جو ...

    مزید پڑھیے

    حیا بھی آنکھ میں وارفتگی بھی

    حیا بھی آنکھ میں وارفتگی بھی بدن میں پیاس لب پر خامشی بھی دریچے بند ہوں اچھا ہے لیکن ضروری ہے ہوا بھی روشنی بھی میں واقف ہوں تری چپ گویوں سے سمجھ لیتا ہوں تیری ان کہی بھی پہن لیں لمس کی آنچیں کسی دن پگھل جائے یہ حد آخری بھی کیا کرتی ہے سجدے مجھ کو ٹھوکر مقدس ہے مری آوارگی ...

    مزید پڑھیے

    بیمار سا ہے جسم سحر کانپ رہا ہے

    بیمار سا ہے جسم سحر کانپ رہا ہے یہ کس نے اجالوں کا لہو چوس لیا ہے اے دوست تری یاد کا مہتاب درخشاں اب یاس کی گھنگھور گھٹاؤں میں چھپا ہے اس دور میں سنسان سے ہیں بام و در زیست نغموں نے خموشی کا کفن اوڑھ لیا ہے سناٹوں کے کف پر مری تصویر بنی ہے تنہائی کے آنچل پہ مرا نام لکھا ہے میں ...

    مزید پڑھیے

تمام