Sulaiman Areeb

سلیمان اریب

جدید ادب کے بنیاد ساز ادبی رسالے ’صبا‘ کے مدیر

Well-Known for his literary magazine 'Sabaa' that helped establish modern literature.

سلیمان اریب کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    جو تیرے حسن میں نرمی بھی بانکپن بھی ہے

    جو تیرے حسن میں نرمی بھی بانکپن بھی ہے وہ کیف تازہ بھی ہے نشۂ کہن بھی ہے مجھے تو چین سے رہنے دے اے دل وحشی کہ دشت بھی ہے ترے سامنے چمن بھی ہے کہاں کی منزل مقصود راستہ بھی نہیں سفر میں ساتھ خدا بھی ہے اہرمن بھی ہے وہ ایک لمحہ پراں وہ ایک ساعت دید حنا بدست بھی ہے لالہ‌ پیرہن بھی ...

    مزید پڑھیے

    یہ بھی شاید ترا انداز دل آرائی ہے

    یہ بھی شاید ترا انداز دل آرائی ہے ہم نے ہر سانس پہ مرنے کی سزا پائی ہے کیسا پیغام کہاں سے یہ صبا لائی ہے شاخ گل صبح بہاراں ہی میں مرجھائی ہے دل کے آباد خرابے میں نہ شب ہے نہ سحر چاندنی لے کے تری یاد کہاں آئی ہے تو مرے چاک گریباں سے تو محجوب نہ ہو میں نے کب تیری محبت کی قسم کھائی ...

    مزید پڑھیے

    غم کدے وہ جو ترے گام سے جل اٹھتے ہیں

    غم کدے وہ جو ترے گام سے جل اٹھتے ہیں بت کدے وہ جو مرے نام سے جل اٹھتے ہیں رات تاریک سہی میری طرف تو دیکھو کتنے مہتاب ابھی جام سے جل اٹھتے ہیں رات کے درد کو کچھ اور بڑھانے کے لئے ہم سے کچھ سوختہ جاں شام سے جل اٹھتے ہیں میں اگر دوست نہیں سب کا تو دشمن بھی نہیں کیوں مگر لوگ مرے نام ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری قید وفا سے جو چھوٹ جاؤں گا

    تمہاری قید وفا سے جو چھوٹ جاؤں گا ازل سے لے کے ابد تک میں ٹوٹ جاؤں گا خبر نہیں ہے کسی کو بھی خستگی کی مری مجھے نہ ہاتھ لگاؤ کہ ٹوٹ جاؤں گا تمہاری میری رفاقت ہے چند قوموں تک تمہارے پاؤں کا چھالا ہوں پھوٹ جاؤں گا ہزار ناز سہی مجھ کو اپنی قسمت پر حنائے دست نگاریں ہوں چھوٹ جاؤں ...

    مزید پڑھیے

    بھیس کیا کیا نہ زمانے میں بنائے ہم نے

    بھیس کیا کیا نہ زمانے میں بنائے ہم نے ایک چہرے پہ کئی چہرے لگائے ہم نے اس تمنا میں کہ اس راہ سے تو گزرے گا دیپ ہر راہ میں ہر رات جلائے ہم نے دل سے نکلی نہ خراش غم ایام کی دھوپ تیرے ناخن سے کئی چاند بنائے ہم نے دامن یار نے حق اپنا جتایا نہ کبھی اشک امڈے بھی تو پلکوں میں چھپائے ہم ...

    مزید پڑھیے

تمام

14 نظم (Nazm)

    تم کس سے ملنے آئے ہو

    تم کس سے ملنے آئے ہو کس چہرے سے کام ہے تم کو کن آنکھوں سے بات کرو گے تم جو چہرہ دیکھ رہے ہو اس میں ہیں کتنے ہی چہرے جن کو لگائے میں پھرتا ہوں تم کس سے ملنا چاہوگے اس شاعر سے جس کو تم نے دیکھا ہے اسٹیج پہ اکثر سب کو بھولے خود کو بھلائے بدمستوں کا بھیس بنائے جس نے فلک پر حکم چلائے سنگ ...

    مزید پڑھیے

    ایجاز

    لفظوں کو بیکار نہ خرچو لفظوں سے پل پل سے نظمیں نظموں سے اظہار انا کے کتنے دریچے کھل جاتے ہیں ایجاز سے کہہ دو

    مزید پڑھیے

    قاتل بے چہرہ

    شراب پی کے یہ احساس مجھ کو ہوتا ہے کہ جیسے میں ہی خدا ہوں خدا کا بیٹا ہوں خدائی جس کو چڑھاتی رہی ہے سولی پر شراب پی کے یہ احساس مجھ کو ہوتا ہے کہ جیسے عرصۂ پیکار حق و باطل میں ہمیشہ میں ہی جو مظہر رہا ہوں نیکی کا شکست کھاتا رہا پیا ہے زہر بھی میں نے کٹایا ہے سر بھی بجھی نہ پیاس مگر ...

    مزید پڑھیے

    ڈیپ فریز

    پچھلی کتنی راتوں سے میں خواب یہی ایک دیکھ رہا ہوں ہاتھ یہ میرے ہاتھ نہیں ہیں پاؤں یہ میرے پاؤں نہیں ہیں ان کے سہارے میں چلتا ہوں سڑکوں پر آوارگی کر کے جھوٹی سچی باتیں اخباروں میں لکھ کر رات گئے جب گھر آتا ہوں کانچ کی آنکھیں پتھر کے دانتوں کا چوکا بندر کا دل عضو تناسل لیکن ...

    مزید پڑھیے

    ابلاغ

    گلا رندھا ہو تو ہم بات کر نہیں سکتے اشاروں اور کنایوں سے اپنے مطلب کو بجائے کانوں کے آنکھوں پہ تھوپ دیتے ہیں گلا تھا صاف تو کیا ہم نے تیر مارا تھا یہی کہ نام کمایا تھا یاوہ گوئی میں غزل سرائی میں یا فلسفہ طرازی میں مگر وہ بات جو سچ ہے ابھی گلے میں ہے گلا رندھا ہو گلا صاف ہو تو فرق ...

    مزید پڑھیے

تمام