Sudarshan Kumar Vuggal

سدرشن کمار وگل

  • 1929

سدرشن کمار وگل کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    یہ جو کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے

    یہ جو کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے کسی کی زلف لہرائی ہوئی ہے نظر ان کی بھری محفل میں آ کر نہ جانے کس سے شرمائی ہوئی ہے غضب ہے دل کشی حسن و ادا کی جوانی جوش پر آئی ہوئی ہے تمہاری یاد بھی آتی نہیں اب نہ جانے کس کی بہکائی ہوئی ہے ہجوم یاس سے تنگ آ کے رفعتؔ تمنا میری مرجھائی ہوئی ہے

    مزید پڑھیے

    سمجھتے ہیں جو کمتر ہر کسی کو

    سمجھتے ہیں جو کمتر ہر کسی کو وہ سمجھیں تو سہی اپنی کمی کو جہاں میں جز غم و رنج و مصیبت ملا بھی ہے عزیزو کچھ کسی کو کہیں بھی تو کہیں اب کیا کسی سے سنائیں تو سنائیں کیا کسی کو حقیقت میں نہیں بنتے کسی کے بناتے ہیں جو اپنا ہر کسی کو نہ پائے رفتن اب نے جائے معدن کہاں تک روئیں اپنی بے ...

    مزید پڑھیے

    یاد آتی ہے تری یوں مرے غم خانے میں

    یاد آتی ہے تری یوں مرے غم خانے میں کھل اٹھے جیسے گلستاں کسی ویرانے میں اپنے دل ہی میں مکیں دیکھا اسے ہم جس کو ڈھونڈتے پھرتے رہے کعبہ و بت خانے میں دل میں تھے شعلہ فشاں حسرت و ارماں شب غم سینکڑوں شمع فروزاں تھیں سیہ خانے میں تھے تری بزم میں سب جام بکف اے ساقی اک ہمیں تشنہ دہن تھے ...

    مزید پڑھیے

    جوانی مری رنگ لانے لگی ہے

    جوانی مری رنگ لانے لگی ہے کلی دل کی اب مسکرانے لگی ہے کسی کی ادا ہم کو بھانے لگی ہے محبت یہ جادو جگانے لگی ہے مرے دل کا خرمن جلانے لگی ہے نظر ان کی بجلی گرانے لگی ہے بشر کی خرد گل کھلانے لگی ہے نئے اب خدا یہ بنانے لگی ہے وہ گزرے ہیں صحن چمن سے خراماں فضا خود بخود گنگنانے لگی ...

    مزید پڑھیے

    نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے

    نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے ہمارا کارواں پھر بھی رواں ہے اسی ڈالی پہ اپنا آشیاں ہے تڑپتی جس جگہ برق تپاں ہے ہوئی ہیں کارگر غیروں کی چالیں ترے لب پر نہیں ہے اب نہ ہاں ہے رہے صیاد ہر دم جس چمن میں وہاں غم کی حکایت جاوداں ہے سرور و نغمہ ہیں اب کل کی باتیں یہاں تو اب فقط آہ و فغاں ...

    مزید پڑھیے

تمام