Sohaib Mugheera Siddiqi

صہیب مغیرہ صدیقی

صہیب مغیرہ صدیقی کی نظم

    سانولی

    کتنے الفاظ ہیں جو مری انگلیوں کے ہر اک پور میں اک سمندر کی مانند بند ہیں سمندر بہت ہی غصیلا سمندر سمندر وہ جو منتظر ہے کہ کب تیرے ہونٹوں کے دونوں سرے مسکراہٹ کی کوشش میں کھچنے لگیں اور رخسار میں پیچ و خم ڈال دیں ایک شاعر جو آنکھیں مسلنے لگے تو ہنسے اور سمندر ابلنے لگے

    مزید پڑھیے

    واہمہ

    رات جاگی تو کہیں صحن میں سوکھے پتے چرمرائے کہ کوئی آیا کوئی آیا ہے اور ہم شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے گو کہ معلوم ہے تو ہے نہ ترا سایہ ہے ہم کہ دیکھیں کبھی دالان کبھی سوکھا چمن اس پہ دھیمی سی تمنا کہ پکارے جائیں پھر سے اک بار تری خواب سی آنکھیں دیکھیں پھر ترے ہجر کے ہاتھوں ہی بھلے ...

    مزید پڑھیے