سانولی
کتنے الفاظ ہیں جو مری انگلیوں کے ہر اک پور میں اک سمندر کی مانند بند ہیں سمندر بہت ہی غصیلا سمندر سمندر وہ جو منتظر ہے کہ کب تیرے ہونٹوں کے دونوں سرے مسکراہٹ کی کوشش میں کھچنے لگیں اور رخسار میں پیچ و خم ڈال دیں ایک شاعر جو آنکھیں مسلنے لگے تو ہنسے اور سمندر ابلنے لگے