تیری بھنووں کی تیغ کے جو روبرو ہوا
تیری بھنووں کی تیغ کے جو روبرو ہوا سب عاشقوں کی صف میں وو ہی سرخ رو ہوا تجھ زلف کے خیال سیں کیوں کر نکل سکوں ہر پیچ و خم نمونۂ طوق گلو ہوا تیرے نگہ کا تیر ہے از بس کہ موشگاف ممنوں ہر ایک زخم سیں میں ہو بہ ہو ہوا رشتے سیں موج گل کی ہوائے بہار میں سب بلبلوں کا چاک گریباں رفو ...