سراج اجملی کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    کیا داستاں تھی پہلے بیاں ہی نہیں ہوئی

    کیا داستاں تھی پہلے بیاں ہی نہیں ہوئی پھر یوں ہوا کہ صبح اذاں ہی نہیں ہوئی دنیا کہ داشتہ سے زیادہ نہ تھی مجھے یوں ساری عمر فکر زیاں ہی نہیں ہوئی گل ہائے لطف کا اسے انبار کرنا تھا کم بخت آرزو کہ جواں ہی نہیں ہوئی تا صبح میری لاش رہی بے کفن تو کیا بانوئے شام نوحہ کناں ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سمندروں میں سراب اور خشکیوں میں گرداب دیکھتا ہے

    سمندروں میں سراب اور خشکیوں میں گرداب دیکھتا ہے وہ جاگتے اور راہ چلتے عجب عجب خواب دیکھتا ہے کبھی تو رشتوں کو خون کے بھی فریب وہم و گمان سمجھا کبھی وہ نرغے میں دشمنوں کے ہجوم احباب دیکھتا ہے شناوری راس آئے ایسی سمندروں میں ہی گھر بنا لے کبھی تلاش گہر میں اپنے تئیں وہ غرقاب ...

    مزید پڑھیے

    ویراں بہت ہے خواب محل جاگتے رہو

    ویراں بہت ہے خواب محل جاگتے رہو ہمسائے میں کھڑی ہے اجل جاگتے رہو جس پر نثار نرگس شہلا کی تمکنت وہ آنکھ اس گھڑی ہے سجل جاگتے رہو یہ لمحۂ امید بھی ہے وقت خوف بھی حاصل نہ ہوگا اس کا بدل جاگتے رہو جن بازوؤں پہ چارہ گری کا مدار تھا وہ تو کبھی کے ہو گئے شل جاگتے رہو ذہنوں میں تھا ...

    مزید پڑھیے

    مرحلے سخت بہت پیش نظر بھی آئے

    مرحلے سخت بہت پیش نظر بھی آئے ہم مگر طے یہ سفر شان سے کر بھی آئے اس سفر میں کئی ایسے بھی ملے لوگ ہمیں جو بلندی پہ گئے اور اتر بھی آئے صرف ہونے سے کہاں مسئلہ حل ہوتا ہے پس دیوار کوئی ہے تو نظر بھی آئے دل اگر ہے تو نہ ہو درد سے خالی کسی طور آنکھ اگر ہے تو کسی بات پہ بھر بھی آئے

    مزید پڑھیے

    بظاہر جو نظر آتے ہو تم مسرور ایسا کیسے کرتے ہو

    بظاہر جو نظر آتے ہو تم مسرور ایسا کیسے کرتے ہو بتانا تو سہی ویرانئ دل کا نظارہ کیسے کرتے ہو تمہاری اک ادا تو واقعی تعریف کے قابل ہے جان من میں ششدر ہوں کہ اس کو پیار اتنا بے تحاشا کیسے کرتے ہو سنا ہے لوگ دریا بند کر لیتے ہیں کوزے میں ہنر ہے یہ مگر تم منصفی سے یہ کہو قطرے کو دجلہ ...

    مزید پڑھیے

تمام