شعلہؔ علی گڑھ کی غزل

    ہجوم یاس میں لینے وہ کب خبر آیا

    ہجوم یاس میں لینے وہ کب خبر آیا اجل نہ آئی تو غش کس امید پر آیا بچھے ہیں کوئے ستم گر میں جا بجا خنجر رگ گلو کا لہو پاؤں میں اتر آیا دکھائی مرگ نے کیا کیا بلندی و پستی چلے زمیں کے تلے آسماں نظر آیا ہمیشہ عفو ترا ہے گناہ کا حامی ہمیشہ رحم تجھے میرے حال پر آیا بتوں میں کوئی بھلائی ...

    مزید پڑھیے

    میں جبہہ سا ہوں اس در عالی مقام کا

    میں جبہہ سا ہوں اس در عالی مقام کا کعبہ جہاں جواب نہ پائے سلام کا سکہ رواں ہے کس بت محشر خرام کا نقش قدم نگیں ہے قیامت کے نام کا کیا پاس غیر قصد ہے گر قتل عام کا اک مردہ دور رکھ دو مسیحا کے نام کا اے رہروان منزل مقصود مرحبا چمکا کلس وہ روضۂ دار السلام کا خنجر سنبھالیے پئے تسلیم ...

    مزید پڑھیے

    منہ سے ترے سو بار کے شرمائے ہوئے ہیں

    منہ سے ترے سو بار کے شرمائے ہوئے ہیں کیا ظرف ہے غنچوں کا جو اترائے ہوئے ہیں کہتے ہیں گنو مجھ پہ جو دل آئے ہوئے ہیں کچھ چھینے ہوئے ہیں مرے کچھ پائے ہوئے ہیں خنجر پہ نظر ہے کبھی دامن پہ نظر ہے کون آتا ہے محشر میں وہ گھبرائے ہوئے ہیں لب پر ہے اگر آہ تو آنکھوں میں ہیں آنسو بادل یہ ...

    مزید پڑھیے

    دل کی بساط کیا تھی جو صرف فغاں رہا

    دل کی بساط کیا تھی جو صرف فغاں رہا گھر میں ذرا سی آگ کا کتنا دھواں رہا شب بھر خیال گیسوئے عنبر فشاں رہا مہکا ہوا شمیم سے سارا مکاں رہا کیا کیا نہ کاوشوں پہ مری آسماں رہا بجلی گرائی مجھ پہ نہ جب آشیاں رہا محشر بھی کوئی درد ہے جو اٹھ کے رہ گیا شکوہ بھی کوئی غم ہے جو دل میں نہاں ...

    مزید پڑھیے

    ضبط فغاں سے آ گئی ہونٹوں پہ جاں تلک

    ضبط فغاں سے آ گئی ہونٹوں پہ جاں تلک دیکھو گے میرے صبر کی طاقت کہاں تلک غفلت شعارہا کے تغافل کہاں تلک جیتا رہے گا کون ترے امتحاں تلک وہ میری آرزو تھی جو گھٹ گھٹ کے رہ گئی وہ دل کی بات تھی جو نہ آئی زباں تلک گلشن میں آ کے تم تو عجب حال کر گئے بھولے ہوئے ہیں مرغ چمن آشیاں تلک پامال ...

    مزید پڑھیے

    نہ خون دل ہے نہ مے کا خمار آنکھوں میں

    نہ خون دل ہے نہ مے کا خمار آنکھوں میں بسی ہوئی ہے تمہاری بہار آنکھوں میں پھری ہیں پتلیاں بیگانہ وار آنکھوں میں چھپا ہوا ہے کوئی پردہ دار آنکھوں میں امید جلوۂ دیدار بعد مرگ کہاں بھری ہے یاس نے خاک مزار آنکھوں میں دیے بغیر ترے باغ میں گلوں نے داغ چبھوئے نرگس شہلا نے خار آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    اے حضرت عیسیٰ نہیں کچھ جائے سخن اب

    اے حضرت عیسیٰ نہیں کچھ جائے سخن اب وہ آ گئے رکھوائیے تہہ کر کے کفن اب سینچا گیا پھولا ہے نئے سر سے چمن اب اشکوں نے کیے سبز مرے داغ کہن اب وہ شوق اسیری کھلے گیسو کے شکن اب ترسیں گے قفس کے لیے مرغان چمن اب خاموشی نے معدوم کیا اور دہن اب تم ہی کہو باقی رہی کیا جائے سخن اب یاران وطن ...

    مزید پڑھیے

    دل کی اک حرف و حکایات ہے یہ بھی نہ سہی

    دل کی اک حرف و حکایات ہے یہ بھی نہ سہی گر مری بات میں کچھ بات ہے یہ بھی نہ سہی عید کو بھی وہ نہیں ملتے ہیں مجھ سے نہ ملیں اک برس دن کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی دل میں جو کچھ ہے تمہارے نہیں پنہاں مجھ سے ظاہری لطف و مدارات ہے یہ بھی نہ سہی زندگی ہجر میں بھی یوں ہی گزر جائے گی وصل کی ...

    مزید پڑھیے