جو سجتا ہے کلائی پر کوئی زیور حسینوں کی
جو سجتا ہے کلائی پر کوئی زیور حسینوں کی تبھی بڑھتی ہیں قیمت جوہری تیرے نگینوں کی اٹھا دیتی ہے دیواریں دلوں کے بیچ یہ اکثر ضرورت کیوں ہو پھر ہم کو بھلا ایسی زمینوں کی اسی میں چھید کرتے ہیں کہ جس تھالی میں کھاتے ہیں بدل سکتی نہیں عادت کبھی ایسی کمینوں کی بھرا ہے لاکھ پھولوں سے ...