Shaziya Akbar

شاذیہ اکبر

شاذیہ اکبر کی غزل

    دیپ جلے تو دیپ بجھانے آتے ہیں

    دیپ جلے تو دیپ بجھانے آتے ہیں شہر کے سارے لوگ رلانے آتے ہیں دل کی کلیاں تیرے نام پہ کھلتی ہیں تارے بھی اب مانگ سجانے آتے ہیں تم پر خوشیوں کے سارے ہی موسم اتریں ہم کو سارے دکھ بہلانے آتے ہیں جانے کیا دیکھا تھا تیری آنکھوں میں جانے کیوں اب خواب سہانے آتے ہیں من مندر میں رکھ کر ...

    مزید پڑھیے

    ترے خیال کو بھی فرصت خیال نہیں

    ترے خیال کو بھی فرصت خیال نہیں جدائی ہجر نہیں ہے ملن وصال نہیں مرے وجود میں ایسا سما گیا کوئی غم زمانہ نہیں فکر ماہ و سال نہیں اسے یقین کے سورج سے ہی ابھرنا ہے وہ سیل وہم میں بہتا ہوا جمال نہیں دہک اٹھے مرے عارض مہک اٹھیں سانسیں پھر اور کیا ہے اگر یہ ترا خیال نہیں نہ جانے کتنے ...

    مزید پڑھیے

    دل و نگاہ کے حسن و قرار کا موسم

    دل و نگاہ کے حسن و قرار کا موسم وہ تیری یاد ترے انتظار کا موسم جھکی ہے آنکھ کئی رت جگے سمیٹے ہوئے چھپا ہے لمس میں کیسا خمار کا موسم ہمارے پیار نے عمر دوام مانگی ہے ہمیں قبول نہیں تھا ادھار کا موسم فراق لمحوں کو ہم نے حسیں بنایا ہے سجا کے دل میں ترے اعتبار کا موسم ملی نگاہ تو اک ...

    مزید پڑھیے

    اب تیرے انتظار کی عادت نہیں رہی

    اب تیرے انتظار کی عادت نہیں رہی پہلے کی طرح گویا محبت نہیں رہی ذوق نظر ہمارا بڑھا ہے کچھ اس طرح تیرے جمال پر بھی قناعت نہیں رہی فرقت میں اس کی روز ہی ہوتی تھی اک غزل اب شاعری ذریعۂ راحت نہیں رہی دنیا نے تیرے غم سے بھی بیگانہ کر دیا اب دل میں تیرے وصل کی چاہت نہیں رہی کچھ ہم بھی ...

    مزید پڑھیے