ان کے جلوے نگاہوں میں ڈھلتے رہے
ان کے جلوے نگاہوں میں ڈھلتے رہے حوصلے دل ہی دل میں مچلتے رہے دوستوں نے تو کانٹے بچھائے بہت مسکراتے ہوئے ہم بھی چلتے رہے کوئی پھولوں سے دامن کو بھر لے گیا ہم کھڑے باغ میں ہاتھ ملتے رہے اس کی بھرپور الھڑ جوانی پہ ہم مسکراتے سسکتے مچلتے رہے راستے منزلیں دور ہوتی گئیں میری فطرت ...