جو بجھ سکے نہ کبھی دل میں ہے وہ آگ بھری
جو بجھ سکے نہ کبھی دل میں ہے وہ آگ بھری بلائے جاں ہے محبت میں فطرت بشری قفس میں ہم نے ہزاروں اسیر دیکھے ہیں رہا ہے کس کا سلامت غرور بال و پری ترے جمال کے اسرار کون سمجھے گا پناہ مانگ رہا ہے شعور دیدہ دری سفر عدم کا ہے دشوار تو اکیلا ہے مجھے بھی ساتھ لیے چل ستارۂ سحری بنا بنا کے ...