Shanawar Ishaq

شناور اسحاق

شناور اسحاق کی غزل

    باد صرصر کی کرامات سے پہلے کیا تھا

    باد صرصر کی کرامات سے پہلے کیا تھا یہ نہ پوچھو کہ یہاں رات سے پہلے کیا تھا اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے جو بتاتی تھی فسادات سے پہلے کیا تھا اے سمندر تری آنکھیں ہیں یہاں سب سے قدیم اس جزیرے پہ مکانات سے پہلے کیا تھا اے زمیں کتنی پرانی ہے یہ نیلی چادر تیرے شانوں پہ سماوات ...

    مزید پڑھیے

    جینے کو ایک آدھ بہانہ کافی ہوتا ہے

    جینے کو ایک آدھ بہانہ کافی ہوتا ہے سچا ہو تو ایک فسانہ کافی ہوتا ہے چاند کو میں نے جب بھی دیکھا یہ احساس ہوا اک صحرا میں اک دیوانہ کافی ہوتا ہے ہم روٹھیں تو گھر کے کمرے کم پڑ جاتے ہیں ہم چاہیں تو ایک سرہانا کافی ہوتا ہے جیتے جی یہ بات نہ مانی مر کے مان گئے سب کہتے تھے ایک ٹھکانہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ہستی کو اندھے کنوئیں میں گرانا نہیں چاہتا

    اپنی ہستی کو اندھے کنوئیں میں گرانا نہیں چاہتا میں حقیقت پسندی کو سولی چڑھانا نہیں چاہتا در بدر ہوں تو شعر و سخن کے لیے یا شکم کے لیے ورنہ میں گھر سے باہر گلی تک بھی آنا نہیں چاہتا میں نے منت نہیں مان رکھی درختوں سے گرتا رہوں میں کسی شاخ پر کوئی تنکا سجانا نہیں چاہتا ہو گئی ہے ...

    مزید پڑھیے

    مری گہرائیاں پل بھر میں وہ نایاب کر دے گا

    مری گہرائیاں پل بھر میں وہ نایاب کر دے گا مجھے وہ بازوؤں میں لے گا اور پایاب کر دے گا عجب انداز ہے اس گل بدن کے پیار کرنے کا مجھے پاتال تک لے جا کے محو خواب کر دے گا وہ جب چاہے جسے چاہے غرور آشنائی دے نظر بھر کر جسے دیکھے گا وہ سرخاب کر دے گا سنا ہے گل کی رعنائی رہے گی جوں کی توں ...

    مزید پڑھیے

    دنیا ہے کیا چیز برابر دیکھ رہا ہوں

    دنیا ہے کیا چیز برابر دیکھ رہا ہوں اپنی آنکھ سے آگے بڑھ کر دیکھ رہا ہوں ایک سمندر آنکھ سے باہر دیکھ رہا ہوں ایک سمندر اپنے اندر دیکھ رہا ہوں کس حیرت سے تیرا پیکر دیکھ رہا ہوں یوں لگتا ہے تتلی کے پر دیکھ رہا ہوں ایسے دیکھو یہ دیکھو اور وہ نہیں دیکھو بند کرو یہ میں بھی اکثر دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    زندگی بچ نکلتی ہے ہر جنگ میں وقت کے وار سے

    زندگی بچ نکلتی ہے ہر جنگ میں وقت کے وار سے پھر ٹپکتا ہے اک بار لمحوں کا خوں سانس کی دھار سے کتنے شہروں کی آلودگی کو ہوا نے اکٹھا کیا اور مرنے پہ آئے تو ہم مر گئے گل کی مہکار سے درد والے تو ایمان لے آئیں ہیں لفظ پر صاحبو! لفظ کیا شے ہے پوچھو یہ فن کار سے یا عزا دار سے ڈوبتے وقت ...

    مزید پڑھیے

    جو چل پڑوں تو کوئی حوصلہ نہیں دیں گے

    جو چل پڑوں تو کوئی حوصلہ نہیں دیں گے یہ سبز پیڑ مجھے راستہ نہیں دیں گے یہ اب جو کھود رہے ہیں زمین میرے لیے میں جی اٹھوں تو کہیں بھی جگہ نہیں دیں گے ہمارے ساتھ یہی کچھ کریں گے لوگ ابھی یہ جانتے ہیں کہ ہم بد دعا نہیں دیں گے یہ آئنے ہیں بھروسا انہیں پہ کرنا ہے یہ بد زبان ہیں لیکن ...

    مزید پڑھیے

    جہاں سے آئے تھے شاید وہیں چلے گئے ہیں

    جہاں سے آئے تھے شاید وہیں چلے گئے ہیں وہ صاحبان بشارت کہیں چلے گئے ہیں زمیں پہ رینگتے رہنے کو ہم جو ہیں موجود جو اہل شرم تھے زیر زمیں چلے گئے ہیں بہشت ہے کہ نہیں ہے یہ تو ہی جانتا ہے ترے فقیر بہ نام یقیں چلے گئے ہیں دکھائی دیں گے کبھی وقت کے جھروکوں سے وہ لوگ اب بھی یہیں ہیں ہمیں ...

    مزید پڑھیے

    کسی خیال کی شبنم سے نم نہیں ہوتا

    کسی خیال کی شبنم سے نم نہیں ہوتا عجیب درد ہے بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا میں آ رہا ہوں ابھی چوم کر بدن اس کا سنا تھا آگ پہ بوسہ رقم نہیں ہوتا تمہارے ساتھ میں چل تو رہا ہوں چلنے کو ہر اک ہجوم میں لیکن میں ضم نہیں ہوتا میں ایسے خطۂ زرخیز کا مکیں ہوں جہاں صنم تراش کو پتھر بہم نہیں ...

    مزید پڑھیے