Shanawar Ishaq

شناور اسحاق

شناور اسحاق کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    باد صرصر کی کرامات سے پہلے کیا تھا

    باد صرصر کی کرامات سے پہلے کیا تھا یہ نہ پوچھو کہ یہاں رات سے پہلے کیا تھا اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے جو بتاتی تھی فسادات سے پہلے کیا تھا اے سمندر تری آنکھیں ہیں یہاں سب سے قدیم اس جزیرے پہ مکانات سے پہلے کیا تھا اے زمیں کتنی پرانی ہے یہ نیلی چادر تیرے شانوں پہ سماوات ...

    مزید پڑھیے

    جینے کو ایک آدھ بہانہ کافی ہوتا ہے

    جینے کو ایک آدھ بہانہ کافی ہوتا ہے سچا ہو تو ایک فسانہ کافی ہوتا ہے چاند کو میں نے جب بھی دیکھا یہ احساس ہوا اک صحرا میں اک دیوانہ کافی ہوتا ہے ہم روٹھیں تو گھر کے کمرے کم پڑ جاتے ہیں ہم چاہیں تو ایک سرہانا کافی ہوتا ہے جیتے جی یہ بات نہ مانی مر کے مان گئے سب کہتے تھے ایک ٹھکانہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ہستی کو اندھے کنوئیں میں گرانا نہیں چاہتا

    اپنی ہستی کو اندھے کنوئیں میں گرانا نہیں چاہتا میں حقیقت پسندی کو سولی چڑھانا نہیں چاہتا در بدر ہوں تو شعر و سخن کے لیے یا شکم کے لیے ورنہ میں گھر سے باہر گلی تک بھی آنا نہیں چاہتا میں نے منت نہیں مان رکھی درختوں سے گرتا رہوں میں کسی شاخ پر کوئی تنکا سجانا نہیں چاہتا ہو گئی ہے ...

    مزید پڑھیے

    مری گہرائیاں پل بھر میں وہ نایاب کر دے گا

    مری گہرائیاں پل بھر میں وہ نایاب کر دے گا مجھے وہ بازوؤں میں لے گا اور پایاب کر دے گا عجب انداز ہے اس گل بدن کے پیار کرنے کا مجھے پاتال تک لے جا کے محو خواب کر دے گا وہ جب چاہے جسے چاہے غرور آشنائی دے نظر بھر کر جسے دیکھے گا وہ سرخاب کر دے گا سنا ہے گل کی رعنائی رہے گی جوں کی توں ...

    مزید پڑھیے

    دنیا ہے کیا چیز برابر دیکھ رہا ہوں

    دنیا ہے کیا چیز برابر دیکھ رہا ہوں اپنی آنکھ سے آگے بڑھ کر دیکھ رہا ہوں ایک سمندر آنکھ سے باہر دیکھ رہا ہوں ایک سمندر اپنے اندر دیکھ رہا ہوں کس حیرت سے تیرا پیکر دیکھ رہا ہوں یوں لگتا ہے تتلی کے پر دیکھ رہا ہوں ایسے دیکھو یہ دیکھو اور وہ نہیں دیکھو بند کرو یہ میں بھی اکثر دیکھ ...

    مزید پڑھیے

تمام