Shamim Farooqui

شمیم فاروقی

شمیم فاروقی کی غزل

    کتاب کون سی ہے اور کس زبان میں ہے

    کتاب کون سی ہے اور کس زبان میں ہے سنا ہے ذکر ہمارا بھی داستان میں ہے اسی نے دھوپ میں چلنے کی جیت لی بازی وہ ایک شخص جو مدت سے سائبان میں ہے زمیں کو جو بھی اگانا ہے وہ اگائے گی مجھے پتہ ہے مرا رزق آسمان میں ہے وہ لوٹ آئے تو اپنی بھی کچھ خبر دوں گا مرے لہو کا پرندہ ابھی اڑان میں ...

    مزید پڑھیے

    اندھیری شب ہے کہاں روٹھ کر وہ جائے گا

    اندھیری شب ہے کہاں روٹھ کر وہ جائے گا کھلا رہے گا اگر در تو لوٹ آئے گا جو ہو سکے تو اسے خط ضرور لکھا کر تجھے وہ میری طرح ورنہ بھول جائے گا بہت دبیز ہوئی جا رہی ہے گرد ملال نہ جانے کب یہ دھلے گی وہ کب رلائے گا لگے ہوئے ہیں نگاہوں کے ہر جگہ پہرے کہاں متاع سکوں جا کے تو چھپائے ...

    مزید پڑھیے

    جو بھی کہنا ہو وہاں میری زبانی کہنا

    جو بھی کہنا ہو وہاں میری زبانی کہنا لوگ کچھ بھی کہیں تم آگ کو پانی کہنا آج وہ شخص زمانے میں ہے یکتا کہہ دو جب کوئی دوسرا مل جائے تو ثانی کہنا غم اگر پلکوں پہ تھم جائے تو آنسو کہیو اور بہہ جائے تو موجوں کی روانی کہنا جتنا جی چاہے اسے آج حقیقت کہہ لو کل اسے میری طرح تم بھی کہانی ...

    مزید پڑھیے

    آسماں کا رنگ میری ذات میں گھل جائے گا

    آسماں کا رنگ میری ذات میں گھل جائے گا دیکھنا اک دن غبار جسم بھی دھل جائے گا ایک اک کر کے پرندے اڑ رہے ہیں شاخ سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے موسم گل جائے گا خوف کی دیوی کو آخر مل گیا اس کا پتہ اس کے شعروں سے بھی اب رنگ تغزل جائے گا درد کے جھونکوں سے بچنا اب کہاں ممکن شمیمؔ بند ہوگا ایک ...

    مزید پڑھیے

    بہت گھٹن ہے بہت اضطراب ہے مولا

    بہت گھٹن ہے بہت اضطراب ہے مولا ہمارے سر پہ یہ کیسا عذاب ہے مولا سنا تھا میں نے یہی دن ہیں پھول کھلنے کے مرے لیے تو یہ موسم خراب ہے مولا کوئی بتائے ہماری سمجھ سے باہر ہے کسے گناہ کہیں کیا ثواب ہے مولا ازل سے تیری زمیں پر کھڑے ہیں تیرے غلام سروں پہ ان کے وہی آفتاب ہے مولا گناہ ...

    مزید پڑھیے

    مرے ہاتھ کی سب دعا لے گیا

    مرے ہاتھ کی سب دعا لے گیا وہ کیا لینے آیا تھا کیا لے گیا فقط رو رہا ہوں کسے یاد ہے کوئی چھین کر مجھ سے کیا لے گیا کہ جب شہر میں کچھ نہ باقی بچا سمندر مجھے بھی بلا لے گیا اگر کھو گئی کوئی شے بھی تو کیا بچا کر وہ اپنی انا لے گیا شمیمؔ اس کے جانے کا کچھ غم نہیں مگر بیچ کا راستہ لے ...

    مزید پڑھیے

    شرمیلی چھوئی موئی عجب موہنی سی تھی

    شرمیلی چھوئی موئی عجب موہنی سی تھی ندی یہ گاؤں میں تھی تو کتنی بھلی سی تھی صحرا بھی تھا اداس سمندر بھی تھا خموش لیکن وہی جنوں وہی دیوانگی سی تھی پانی کے انتظار میں خالی گھڑے کے پاس کچھ شوخ شوخ رنگ تھے کچھ دل کشی سی تھی سوکھی ہوئی ندی کو سمندر کی تھی تلاش اس خواہش فضول میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    جو ہو سکے تو کبھی قید جسم و جاں سے نکل

    جو ہو سکے تو کبھی قید جسم و جاں سے نکل یہاں سے میں بھی نکلتا ہوں تو وہاں سے نکل ادھر ادھر سے نکلنا بہت ہی مشکل ہے بڑھے گی بھیڑ ابھی اور درمیاں سے نکل زمیں بھی تیری ہے مالک غلام بھی تیرے کبھی تو میرے خدا اپنے آسماں سے نکل ازل سے دشت جنوں تیرے انتظار میں ہے قبائے آگہی اب پھینک دے ...

    مزید پڑھیے

    ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں

    ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں پھر بلاتی ہیں کسی کو بادبانی کشتیاں اک عجب سیلاب سا دل کے نہاں خانے میں تھا ریت ساحل دور تک پانی ہی پانی کشتیاں موج دریا نے کہا کیا ساحلوں سے کیا ملا کہہ گئیں کل رات سب اپنی کہانی کشتیاں خامشی سے ڈوبنے والے ہمیں کیا دے گئے ایک انجانے سفر کی ...

    مزید پڑھیے