شکیل شمسی کی غزل

    منبروں پر بھی گنہ گار نظر آتے ہیں

    منبروں پر بھی گنہ گار نظر آتے ہیں سب قیامت کے ہی آثار نظر آتے ہیں ان مسیحاؤں سے اللہ بچائے ہم کو شکل و صورت سے جو بیمار نظر آتے ہیں جانے کیا ٹوٹ گیا ہے کہ ہر اک رات مجھے خواب میں گنبد و مینار نظر آتے ہیں مات دیتے ہیں یزیدوں کو لہو سے ہم ہی ہم ہی نیزوں پہ ہر اک بار نظر آتے ...

    مزید پڑھیے

    لدی ہے پھولوں سے پھر بھی اداس لگتی ہے

    لدی ہے پھولوں سے پھر بھی اداس لگتی ہے یہ شاخ مجھ کو مری غم شناس لگتی ہے کسی کتاب کے اندر دبی ہوئی تتلی اسی کتاب کا اک اقتباس لگتی ہے وہ موت ہی ہے جو دیتی ہے سو طرح کے لباس یہ زندگی ہے کہ جو بے لباس لگتی ہے تھی قہقہوں کی تمنا تو آ گئے آنسو خوشی کی آرزو غم کی اساس لگتی ہے اٹھا کے ...

    مزید پڑھیے

    تیری نظر کے سامنے یہ دل نہیں رہا

    تیری نظر کے سامنے یہ دل نہیں رہا آئینہ آئنہ کے مقابل نہیں رہا اچھا ہوا کہ وقت سے پہلے بچھڑ گیا بربادیوں میں تو مری شامل نہیں رہا مجھ کو سمجھ رہا تھا جو ماضی کی اک کتاب وہ بھی نئے نصاب میں شامل نہیں رہا لوٹ آئیں پھر سے کشتیاں طوفاں سے ہار کر ویراں بہت دنوں مرا ساحل نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بادشاہوں کی طرح اور نہ وزیروں کی طرح

    بادشاہوں کی طرح اور نہ وزیروں کی طرح ہم تو درویش تھے آئے یہاں پیروں کی طرح راج محلوں میں کہاں ڈھونڈھ رہے ہو ہم کو ہم تو اجمیر میں رہتے ہیں فقیروں کی طرح ہم بھی اس ملک کی تقدیر کا اک حصہ ہیں ہم نہ مٹ پائیں گے ہاتھوں کی لکیروں کی طرح جانفشانی سے بہت ہم نے جڑے ہیں آنسو مادر ہند ترے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2