شکیل شمسی کی غزل

    پلکوں پہ لرزتے رہے آنسو کی طرح ہم

    پلکوں پہ لرزتے رہے آنسو کی طرح ہم گھر میں ترے مہکا کئے خوشبو کی طرح ہم سورج کے لئے چھوڑا تھا اس نے ہمیں پھر بھی راتوں کو ستاتے رہے جگنو کی طرح ہم آتے رہے جاتے رہے کشتی کے مسافر پیروں سے لپٹتے رہے بالو کی طرح ہم ریکھا ہے کھنچی اور نہ ہے سیتا کوئی گھر میں اس شہر میں کیوں پھرتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    دل کی کہانیوں کو نیا موڑ کیوں دیا

    دل کی کہانیوں کو نیا موڑ کیوں دیا رشتوں کے ٹوٹے شیشے کو پھر جوڑ کیوں دیا دہلیز پر جلا کے سر شام اک چراغ دروازہ تم نے گھر کا کھلا چھوڑ کیوں دیا گلدان میں سجے ہوئے نقلی گلاب پر اک بد حواس تتلی نے دم توڑ کیوں دیا طوفاں سے لڑ رہا تھا وہ ساحل کے واسطے ساحل ملا تو ناؤ کا رخ موڑ کیوں ...

    مزید پڑھیے

    یاد تم آئے تو پھر بن گئیں بادل آنکھیں

    یاد تم آئے تو پھر بن گئیں بادل آنکھیں دل کے ویرانے کو کرنے لگیں جل تھل آنکھیں میری آنکھوں کا کوئی ابر سے رشتہ ہے ضرور ٹوٹ کے برسی گھٹا جب ہوئیں بوجھل آنکھیں خواب کو خواب سمجھتی ہی نہیں جانے کیوں ڈھونڈھتی رہتی ہیں اک شخص کو پاگل آنکھیں کیسا رشتہ ہے تعلق ہے یہ کیسا آخر چوٹ تو دل ...

    مزید پڑھیے

    اس گھر میں مرے ساتھ بسر کر کے تو دیکھو

    اس گھر میں مرے ساتھ بسر کر کے تو دیکھو ٹوٹی ہوئی کشتی میں سفر کر کے تو دیکھو دھرتی سے بچھڑنے کی سزا کہتے ہیں کس کو طوفاں میں جزیروں پہ نظر کر کے تو دیکھو خوابوں کو صلیبوں پہ سجا پاؤ گے ہر سو آنکھوں کے بیاباں سے گزر کر کے تو دیکھو ممکن ہے کہ نیزے پہ اٹھا لے کوئی بڑھ کر مقتل کے ...

    مزید پڑھیے

    پیار میں اس نے تو دانستہ مجھے کھویا تھا

    پیار میں اس نے تو دانستہ مجھے کھویا تھا جانے کیوں پھر وہ اکیلے میں بہت رویا تھا اس کو بھی نیند نہیں آئی بچھڑ کر مجھ سے آخری بار وہ بانہوں میں مری سویا تھا میرے اشکوں میں رہا وہ بھی برابر کا شریک میں نے یہ بوجھ اکیلے ہی نہیں ڈھویا تھا رات بھر تجھ کو سناتا رہا میرا قصہ رات بھر ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو ترے سلوک سے کوئی گلہ نہ تھا

    مجھ کو ترے سلوک سے کوئی گلہ نہ تھا زہر اب پی رہا تھا مگر لب کشا نہ تھا کانٹوں سے جسم چھلنی ہے میرا اسی لئے پھولوں سے پیار کرنے کا کچھ تجربہ نہ تھا لاکھوں تماش بین ہیں اور ہم صلیب پر اک وقت وہ تھا کوئی ہمیں دیکھتا نہ تھا کیا جانے اس کی آنکھ میں کیوں اشک آ گئے چہرے پہ میرے کچھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    سنگ مجنوں پہ لڑکپن میں اٹھایا کیوں تھا

    سنگ مجنوں پہ لڑکپن میں اٹھایا کیوں تھا یاد غالب کی طرح سر مجھے آیا کیوں تھا بات اب یہ نہیں کیوں چھوڑا تھا اس نے مجھ کو بات تو یہ ہے کہ وہ لوٹ کے آیا کیوں تھا کتنے معصوم صفت لوگ تھے سمجھے ہی نہیں اس نے پر توڑ کے تتلی کو اڑایا کیوں تھا جس کے ہاتھوں میں نظر آتے تھے پتھر کل تک اس نے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی یوں تو بہت عیار تھی چالاک تھی

    زندگی یوں تو بہت عیار تھی چالاک تھی موت نے چھو کر جو دیکھا ایک مٹھی خاک تھی جاگتی آنکھوں کے سپنے دل نشیں تو تھے مگر میرے ہر اک خواب کی تعبیر ہیبت ناک تھی آج کانٹے بھی چھپائے ہیں لبادوں میں بدن اک زمانے میں تو فصل گل بھی دامن چاک تھی تھا ہمیں بھی ہر قدم پہ ناک کٹ جانے کا ڈر ان ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی آنکھ سے آنسو ٹپک رہے ہوں گے

    کسی کی آنکھ سے آنسو ٹپک رہے ہوں گے تمام شہر میں جگنو چمک رہے ہوں گے چھپا کے رکھے ہیں کپڑوں کے بیچ میں اس نے مرے خطوط یقیناً مہک رہے ہوں گے کھلی ہے دھوپ کئی دن کے بعد آنگن میں پھر الگنی پہ دوپٹے لٹک رہے ہوں گے وہ چھت پہ بال سکھانے کو آ گئی ہوگی نہ جانے اب کہاں بادل بھٹک رہے ہوں ...

    مزید پڑھیے

    اس سے گلے شکایتیں شکوے بھی چھوڑ دو

    اس سے گلے شکایتیں شکوے بھی چھوڑ دو در اس کا چھٹ گیا تو دریچے بھی چھوڑ دو کیسا ہے وہ کہاں ہے بنا کس کا ہم سفر بہتر ہے کچھ سوال ادھورے بھی چھوڑ دو اک بے وفا کا نام لکھو گے کہاں تلک اوراق اپنے ماضی کے سادے بھی چھوڑ دو جینے کے واسطے نہ سہارے کرو تلاش جب ڈوب ہی رہے ہو تو تنکے بھی چھوڑ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2